مدارس کے قیام، تحفظ اور ترقی کے اصول

ہند و پاک کے اکثر اہل السنہ والجماعہ کے مدارس براہ راست یا بالواسطہ دار العلوم دیوبند سے وابستہ ہیں اور اس کا پرتوہیں،  ہمارے مدارس کے قیام کے مقاصد بھی وہی ہیں جن مقاصد کے لیے حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ نے دارالعلوم دیوبند کو قائم فرمایا تھا، دارالعلوم دیوبند کی بقاء، تحفظ اور ترقی کے لیے جن اصول کو آپ نے مقرر فرمایا ہم بھی ان اصول کا اہتمام کریں گے، تو ان شاء اللہ ہمارے مدارس بھی محفوظ رہیں گے، قیامت کی صبح تک دینی خدمت میں مصروف بھی رہیں گے، اور ہم ان شاء اللہ اپنے مقصد میں کامیاب وسرخ رو بھی ہوں گے ۔

دارالعلوم دیوبند کے قدیم دستورِ اساسی کے مطابق دارالعلوم کو مندرجہ ذیل مقاصد کے لیے قائم کیا گیا ہے :

(۱)قرآن مجید، تفسیر، حدیث، عقائدوکلام اور ان کے علوم کے متعلقہ ضروری اور مفید فنون آلیہ کی تعلیم دینا اور مسلمانوں  کو مکمل طور پر اسلامی معلومات بہم پہنچانا، رشد و ہدایت اور تبلیغ کے ذریعے اسلام کی خدمت انجام دینا ۔

(۲)اعمال واخلاق ِاسلامیہ کی تربیت اور طلباء کی زندگی میں اسلامی روح پیدا کرنا ۔

(۳)اسلام کی تبلیغ واشاعت اور دین کا تحفظ ودفاع اور اشاعتِ اسلام کی خدمت بذریعہ تحریر و تقریر بجا لانا  اور مسلمانوں میں تعلیم و تبلیغ  کے ذریعے خیر القرون اور سلف صالحین جیسے اخلاق و اعمال اور جذبات پیدا کرنا ۔

(۴)حکومت کے اثرات سے اجتناب و احتراز اور علم و فکر کی آزادی کو برقرار رکھنا ۔

(۵)علوم دینیہ کی اشاعت کے لیے مختلف مقامات پر مدارسِ عربیہ قائم کرنا اور ان کا دارالعلوم سے الحاق ۔(تاریخ دارالعلوم دیوبند ۱؍۱۴۲)

مدارس کی تعلیمی اور تعمیری ترقی اور مذکورہ بالا مقاصدکی تکمیل میں ذمہ دارانِ مدارس اوراساتذہ مدارس دونوں کا اہم کردار ہوتا ہے اور دونوں کا مقصد ایک ہوتا ہے ؛ البتہ خدمت کی نوعیت مختلف ہوتی ہے ۔

ذمہ دارانِ مدرسہ اپنے علاقہ میں مسلمانوں کے ایمان وعقائد کی حفاظت، امت مسلمہ کی نئی نسل کو دینی تعلیمات سے آراستہ و پیراستہ کرنے اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے مدرسہ کی بنیاد رکھتے ہیں، مدرسہ کے لیے تمام ضروری وسائل، جگہ کی فراہمی، مالیات کی فراہمی، اساتذہ وطلبہ سے متعلق تمام ضروریات کی تکمیل کے لیے کوشش کرتے ہیں، تو اساتذہ ان ذمہ داروں کے حسین خوابوں کوشرمندہ تعبیرکرنے والے ہیں ۔

جن مقاصد کے لیے ذمہ دارنِ مدرسہ بیج بوتے ہیں، اساتذہ اس بیج کو تناور اور ثمرآور درخت بنانے والے ہیں ۔

ذمہ دارانِ مدرسہ، مدرسہ کو ظاہری اعتبار سے مزین کرتے ہیں، تو اساتذہ مدرسہ کو حقیقی اعتبار سے یعنی امت کے نونہالوں کو علمِ دین سے آراستہ کرنے کے اعتبار سے کوشش کرتے رہتے ہیں۔

لہٰذا مدارس کے مقاصد میں کامیابی کے لیے ذمہ دارانِ مدرسہ اور اساتذہ مدرسہ دونوں برابر کے شریک ہیں، مدارس کے بقا و تحفظ اور مقصد میں کامیابی کے لیے دونوں کو آپس میں ایک دوسرے کا محسن و معاون سمجھنا چاہیے ۔

ذمہ دارانِ مدرسہ اگر مدرسہ کے لیے جگہ خریدیں اور شاندار عمارت تعمیر کرلیں، تمام ضروریاتِ مدرسہ کی تکمیل کرلیں؛ لیکن مدرسہ کی چہاردیواری میں طلبہ واساتذہ نہ ہوں، تو یہ تعمیرات واسباب کچھ کام کے نہیں ہیں، اسی طرح موجودہ زمانہ میں کوئی شخص ذی استعداد عالم بن جائے ؛لیکن پڑھانے کے لیے کوئی موزوں  ومناسب دارالعلوم / مدرسہ / مکتب نہ ملے، تو اس کی صلاحیت و استعداد استعمال نہیں ہوگی، دنیوی کاروبار میں لگنے کی وجہ سے برباد ہوجائے گی۔

بہرحال ذمہ داران اور اساتذہ مدارس کی ترقی اور مقاصد میں کامیابی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہیں،لہٰذا آپسی وحدت واجتماعیت، اتحادِ فکر اور اجتماعیتِ قلوب کی اشد ضرورت ہے، ذمہ دارنِ مدرسہ کی فکر کچھ اور ہے، اساتذہ کی سوچ الگ اورمحنت الگ ہے، تو لاحاصل ہے، اساتذہ باصلاحیت اور ذی استعداد ہیں؛ لیکن مدرسہ میں و سائل کی کمی اور اسباب کا فقدان ہے، تو مدرسہ کی ترقی نہیں ہوسکتی۔

اتحادِ فکر اور اجتماعیت قلوب کے لیے درج ذیل امور کا اہتمام ضروری ہے :

(۱)باہمی تعاون

قیامِ مدرسہ کے مقاصد کی تکمیل عملہ اور ذمہ داروں کے آپسی تعاون کے بغیر ناممکن ہے، مدرسہ کی ضروریات کی تکمیل اور ضروری اشیاء کی فراہمی، وغیرہ میں ذمہ دارانِ مدرسہ کا تعاون ضروری ہے، طلبہ کی تربیتی اخلاقی اور تعلیمی ترقی میں اساتذہ کا کردار و تعاون اہم ہے، نیز ایک مدرسہ میں خدمت کرنے والوں کا بھی آپس میں ایک دوسرے کا معاون ہونا ضروری ہے، اپنی مفوضہ ذمہ داریوں نیز اسباق و نگرانی کی ترتیب اور اوقات کا اہتمام وغیرہ کو پورا  کرنے کے ذریعے مہتمم /صدر مدرس / ناظم کاتعاون ضروری ہے، مشورہ طلب امور میں مہتمم / ناظم / صدر مدرس کا اساتذہ سے مشورہ کرنے سے اساتذہ معاون بنیں گے ورنہ معاند بن سکتے ہیں ۔

(۲)آپسی اکرام و تعظیم

ذمہ داران و اساتدہ میں سے کوئی حاکم و محکوم نہیں ہے،دونوں کا مقصد ایک ہے، ہر مسلمان کو اس کے شایان شان اکرام کرنا یہ شرعی و اخلاقی فریضہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹے، بڑے، مسلم غیر مسلم شرفائے قوم میں سے ہر ایک کا اس کے لائق اکرام فرمایا کرتے تھے ۔

عکرمہ بن ابی جہل ؓمسلمان ہوکر مدینہ منور حاضر ہوئے، تو آپ نے ارشاد فرمایا: عکرمہ بن ابی جہل آرہے ہیں، کوئی شخص ان کے باپ کی وجہ سے ان کو عار نہ دلائے، نیز آپ نے کھڑے ہوکر ان کا استقبال فرمایا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:اَنْزِلُواالنَّاسَ عَلیٰ مَنَازِلِہِمْ۔ (ابوداؤدکتاب الاداب،رقم :۴۸۴۲)

ہر آدمی کے ساتھ اس کے مقام و مرتبہ کا لحاظ رکھو۔

ذمہ دارانِ مدرسہ، مدرسہ کے محسن، معاون، خیرخواہ اور مدرسہ کے خارجی انتظامی امور کو انجام دینے والے ہوتے ہیں نیز عمر میں بھی عمومًا بڑے ہوتے ہیں اور تمام انتظامی امور کے الجھنوں کو اپنے سر لے کر ہم کو دینی تعلیم کے مشغلہ کے لیے فارغ کردیاہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا وَیُؤَقِّرْ کَبِیْرَنَا۔ (ترمذی باب رحمۃ الصبیان: ۱۹۲۱)

جوشخص چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کی تعظیم نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔

اساتذہ حفاظِ قرآن، علمائے دین، انبیاء کے وارثین اورعلم ودین کے خادمین ہوتے ہیں، اس اعتبار سے وہ اکرام و اعزاز کے مستحق ہیں ۔

(۳)آپسی مشورہ

ذمہ داران ِ مدرسہ کو چاہیے مدرسہ سے متعلقہ امور آپسی مشورہ سے انجام دیں، نیز ناظمِ مدرسہ وصدر مدرس کو قابل مشورہ امور میں اساتذہ سے مشورہ کا اہتمام کرے، اس سے ذمہ دارن اور اساتذہ کے درمیان اعتماد و اطمینان کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور طے شدہ امور کی تکمیل میں تعاون رہتا ہے، ہم سب مشورہ کی اہمیت وافادیت سے بخوبی واقف ہیں ۔

(۴)نزاع و اختلافات سے اجتناب

جھگڑے و اختلافات سے گھر اجڑ جاتا ہے، خاندان بکھر جاتا ہے، ملک بک جاتے ہیں، تنظیمیں ٹوٹ جاتی ہیں، قومیں برباد ہو جاتی ہیں، اگرذمہ داران اور اساتذہ میں اختلافات پیدا ہوں گے، تو مدارس ویران ہوجائیں گے ۔

اگرمدارس کے ذمہ داروں میں اختلاف ہوگا، مدرسہ کی ترقی تنزل میں بدلے گی، اپنی ذات کی، ذمہ داروں کی اورمدرسہ کی بدنامی ہوگی اورمدرسہ ترقی کی راہ سے کوسوں دور ہو جائے گا، اگر اس طرح کے حالات اورمشکلات پیدا ہو جائیں، تو اس کو خوش اسلوبی سے اپنے بڑوں سے حل کرانا چاہیے نیز ان مصائب وحوادث پر صبر سے کام لینا چاہیے۔ ان شاء اللہ۔ اللہ کی مدد و نصرت آئے گی ۔

(۵)اخلاص ِنیت

مدرسہ کی جس نوعیت کی بھی خدمت ہم سے متعلق ہو، اس اللہ کی رضا اور دینِ اسلام کی اشاعت وحفاظت کے لیے کرنا چاہیے، عمل خواہ کتنا ہی بڑا ہو، اگر وہ اللہ کی رضا کے لیے نہ ہو، تو دنیوی مقاصد ممکن ہے حاصل ہو جائیں، لیکن قیامت میں وبال کا سبب ہوگا، جیساکہ حضرت ابوہریرۃ ؓ کی مشہور حدیث میں عالم، سخی اورمجاہد کے احوال ذکر کیے گئے ہیں اورجوعمل اللہ کے لیے نہ ہو، اس میں برکت نہیں ہوتی اور دیرپا بھی نہیں ہوتا، لہٰذا ضروری ہے کہ مدرسہ کی جس نوعیت کی بھی ہم خدمت انجام دے رہے ہوں، اس کو اللہ کا فضل اور اس کی عظیم نعمت سمجھیں اور اپنے عہدوں اور کارناموں پر نہ اترائیں اور کسی عمل کو لوگوں کو دکھاوے کے لیے نہ کریں۔

قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ دینی مدارس خصوصاً دارالعلوم دیوبند کے قیام و بقا اور ترقی کے لیے جو دستور العمل تجویز فرمایا ہے وہ پیش ِخدمت ہے، بقول حضرت حکیم الاسلام قاری محمدطیب صاحب ؒ اصول کا متن حضرت والا کے قلم کا لکھا ہوا ہے اور دار العلوم دیوبند کے خزانہ میں محفوظ ہے ،جس کا عنوان ہے: وہ اصول جن پہ یہ مدرسہ اور نیز مدارسِ چندہ مبنی معلوم ہوتے ہیں (خطباتِ حکیم الاسلام ۹؍۲۵۳)

(۱)اصل اول یہ ہے کہ تا مقدور کارکنانِ مدرسہ کو ہمیشہ تکثیر چندہ پرنظر رہے، آپ کوشش کریں اوروں سے کرائیں،خیر اندیشانِ مدرسہ کو یہ بات ہمیشہ ملحوظ رہے ۔

(۲)ابقائے طعامِ طلبہ بلکہ افزائش طلبہ میں جس طرح ہوسکے خیر اندیشانِ مدرسہ ہمیشہ ساعی رہیں ۔

(۳)مشیران ِمدرسہ کوہمیشہ یہ بات ملحوظ رہے کہ مدرسہ کی خوبی اور خوش اسلوبی ہو، اپنی بات کی پچ نہ کی جائے، خدانخواستہ جب اس طرح کی نوبت آئے گی کہ اہل مشورہ کو اپنی مخالفت رائے اور اوروں کی رائے کے موافق ہونا ناگوار ہو، تو پھر اس مدرسہ کی بنیاد میں تزلزل آجائے گا، القصہ تہہ دل سے بر وقت مشورہ اور نیز اس کے پس وپیش میں اسلوبی مدرسہ ملحوظ رہے، سخن پروری نہ ہو اور اس لیے ضروری ہے کہ اہل مشورہ اظہار رائے میں کسی وجہ سے متامل نہ ہوں اور سامعین بہ نیت نیک اس کوسنیں، یعنی یہ خیال رہے کہ اگردوسرے کی بات سمجھ میں آجائے گی، تو اگرچہ ہمارے مخالف ہی کیوں نہ ہو، بدل و جان قبول کریں گے اور نیز اسی وجہ سے یہ ضروری ہے کہ مہتمم امور مشورہ طلب میں اہل مشورہ سے ضرور مشورہ کرے، خواہ وہ لوگ ہوں جو ہمیشہ مشیرِ مدرسہ رہتے ہیں یاکوئی وارد وصادر جو علم وعقل رکھتا ہو اور مدرسوں کا خیر اندیش ہو اور نیز اس وجہ سے ضرورہے کہ اگر اتفاقا کسی وجہ سے اہل مشورہ سے مشورے کی نوبت نہ آئے اور بہ قدر ضرورت اہل مشورہ کی مقدار معتدبہ سے مشورہ کیا گیا ہو تو اس وجہ سے ناخوش نہ ہو کہ مجھ سے کیوں نہ پوچھا، ہاں اگر مہتمم  نے کسی سے نہ پوچھا تو پھر اہل مشورہ معترض ہوسکتے ہیں۔

(۴)یہ بات بہت ضروری ہے کہ مدرسین ِمدرسہ باہم متفق المشرب ہوں اور مثل علماء روزگار خودبیں اوردوسروں کے درپئے توہین نہ ہوں، خدانخواستہ جب اس کی نوبت آئے گی تو اس مدرسہ کی خیر نہیں ۔

(۵)خواندگی مقررہ اس انداز سے جو پہلے تجویز ہوچکی ہے یا بعد میں کوئی اور انداز مشورہ سے تجویز ہو پوری ہو جایا کرے ورنہ یہ مدرسہ اول تو خوب آباد نہ ہوگا اوراگر ہوگا تو بے فائدہ ہوگا ۔

(۶)اس مدرسہ میں جب تک آمدنی کی کوئی سبیل یقینی نہیں جب تک یہ مدرسہ ۔ان شاء اللہ۔ بشرط توجہ الی اللہ اسی طرح چلے گا اور کوئی آمدنی ایسی یقینی حاصل ہوگئی جیسے جاگیر یا کارخانہء تجارت یا کسی امیر محکم القول کا وعدہ تو پھر یوں نظر آتا ہے کہ یہ خوف ورجا جو سرمایہ رجوع الی اللہ ہے، ہاتھ سے جاتا رہے گا اور امداد غیبی موقوف ہوجائے گی اور کارکنوں میں باہم نزاع پیدا ہوجائے گا، القصہ آمدنی اور تعمیر وغیرہ میں ایک نوع کی بے سروسانی ملحوظ رہے ۔

(۷)سرکار کی شرکت اور امراء کی شرکت بھی زیادہ مضر معلو م ہوتی ہے ۔

(۸)تا مقدور ایسے لوگوں کا چندہ زیادہ موجب ِبرکت معلوم ہوتا ہے جن کو اپنے چندہ سے امید ناموری نہ ہو، بالجملہ حسنِ نیت اہل چندہ زیادہ پائیداری کا سامان معلوم ہوتاہے ۔

تحریک ِخلافت کے موقع پر مولانا محمدعلی جوہر مرحوم دارالعلوم دیوبند آئے اورحضرت نانوتویؒ کے اصولِ ہشت گانہ دیکھے، تو مولانا محمدعلی جوہر کے آنکھوں میں آنسوں آگئے اورفرمایا کہ ان اصول کا عقل سے کیا تعلق ہے؟یہ تو خالص الہامی ومعرفت کے سرچشمے سے نکلی ہوئی باتیں ہیں، سو برس کے بعد دھکے کھا کر ہم جس نتیجے پرپہنچے ہیں، حیرت ہے کہ یہ بزرگ پہلے ہی اس نتیجے پرپہنچ چکے ہیں۔ (تاریخ دارالعلوم ۱؍۱۵۲)

ہم سب کے لیے دفعہ نمبر تین اور اساتذہ کے لیے بہ طورخاص دفعہ نمبر چار اور پانچ میں غور کرنے کی ضرورت ہے ۔

غرض یہ ہے مدارس کی ترقی کے لیے ذمہ داران اور اساتذہ کو باہم معاون بن کر، الفت ومحبت، ایک دوسرے کا ادب و احترام کرتے ہوئے آپسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر مشورہ کے ساتھ خدمت میں لگنا چاہیے،ا ن شاء اللہ اپنی ذات کی بھی ترقی ہوگی اورمدرسہ کی بھی ترقی ہوگی ۔

* * *

شیئر کریں

رائے

فہرست

اپڈیٹ شدہ

اشتراک کریں

سبسکرائب کریں

نئے اپڈیٹس بارے معلومات حاصل کریں۔ اپنا ای میل ایڈریس درج کریں اور سبسکرائب بٹن دبائیں۔ شکریہ

سوشل میڈیا

مشہور مدارس