ماہ رمضان میں رسول اللہ ﷺ کے معمولات

اسلام میں جوعبادتیں رکھی گئی ہیں ان کا اصل مقصد ان عبادتوں کے ذریعہ رب العالمین کی عظمت وکبرائی کا اقرار واعتراف اور اس کے حضور اپنی بندگی ، سرافگندی اور تواضع وعاجزی کا اظہار ہے، نماز و زکاة ہو یا روزہ و حج یہ ساری عبادتیں ان مقاصد میں مشترک ہیں، ان عمومی اورمشترکہ مقاصد کے ساتھ ان عبادتوں کے کچھ اور بھی ضمنی مقاصد ہیں جو قرآن وحدیث کے مطالعہ سے ہمارے سامنے آتے ہیں؛ چنانچہ ان عبادتوں کا ایک اہم مقصد بندوں کی دینی اور روحانی تہذیب و تربیت بھی ہے، جس طرح ہرعبادت کا انداز ، طرز عبادت اور اس کے ارکان وشرائط جداجدا ہیں ، اسی طرح ان کی تاثیریں بھی الگ الگ ہیں، جن سے الگ الگ پہلووٴں سے بندوں کی تکمیل اور تربیت ہوتی ہے۔

چنانچہ نماز انسان کو بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے، زکاة سے حب دنیا کا علاج ہوتا ہے جو ہربرائی کی جڑ ہے، حج اللہ کی محبت میں سرشاری اور کامل بندگی پیدا کرنے کا موثر ذریعہ ہے، اور روزہ سے تقوی حاصل ہوتا ہے، نفس کے وہ حیوانی شیطانی اور شہوانی تقاضے کمزور ہوتے ہیں جوانسان کو دنیا اوردنیاکی لذتوں کی طرف کھینچتے اورفکرآخرت سے غافل کرتے ہیں، روزہ قلب وروح کی بہترین غذا اوران کی طہارت و پاکیزگی کابہترین ذریعہ ہے، روزہ سے انسان میں ذوق طاعت پیدا ہوتا ہے، اس کا مزاج فرشتوں کے مزاج سے کافی ہم آہنگ اور قریب ہوجاتا ہے، فرشتے اللہ کے محبوب اور محترم بندے ہیں، لہٰذا ان کی مشابہت اختیار کرنے والا بھی اللہ کا محبوب بن جاتاہے، روزہ انسان کو خواہشات پر کنٹرول کرنا سکھاتا ہے،صبر کا عادی بناتا ہے، بھوک وپیاس کا احساس دلاکر بھوکوں اور پیاسوں کے لیے ہمدردی اور خیرخواہی کے جذبات پیدا کرتاہے، غیبت وبدگوئی اور فحش وبیہودہ باتوں سے روک کراس میں بہترین اخلاق پیدا کرتا ہے، روزہ اعلی درجہ کا اخلاص سکھاتا ہے، روزے میں بارہا ایسے مواقع آتے ہیں جب تنہائی بھی ہوتی ہے، بھوک وپیاس کا شدید تقاضہ بھی ہوتا ہے، اور کھانے پینے کی چیزیں بھی مہیا ہوتیں، کوئی دیکھنے والا نہیں ہوتا، صرف اللہ کی آنکھ دیکھ رہی ہوتی ہے، جس کے لحاظ اور ڈر سے بندہ بھوک پیاس پر صبر کر جاتا ہے، روزہ دار کا یہی اخلاص ہے جس کی بنا پر اس کے منہ کی بو اللہ کو مشک کی خوشبو سے عزیز تر ہے، اور کل قیامت کے دن اس کواپنے اس اخلاص کا صلہ خاص اللہ کے ہاتھوں سے ملنے والاہے، روزہ گناہوں کے معاف کرانے اور نیکیوں کا ذخیرہ جمع کرنے بہترین ذریعہ ہے، اس کے لیے بس ذرا سی توجہ اور ہمت درکار ہوتی ہے۔ (زاد المعاد ابن القیم۱/۲۶۶)

روزہ ہو یا دوسری عبادتیں ان کے مقاصد اوران کے فوائد وثمرات اسی وقت حاصل ہوتے ہیں جب کہ ان کو پورے ذوق وشوق سے ان کے شرائط وآداب کے ساتھ انجام دیا جائے، اس کے بغیر مطلوبہ فوائد پوری طرح حاصل نہیں ہوتے، عبادات میں ذوق وشوق پیدا کرنے کا سب سے بہترین ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ کی سیرت وعمل ہیں اوران کے شرائط وآداب جاننے کا سب سے بنیادی ذریعہ قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ کے ارشادات وفرمودات ہیں؛ اس لیے آئیے ذیل کی سطروں میں یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ روزے کے سب سے حسین موسم رمضان المبارک کو کس طرح گذارتے تھے، آپ کے معمولات کیا ہوتے تھے، اورآپ نے روزوں کے خیر وبرکت پانے کے لیے امت کو کیا ہدایات دیں؟

عبادت وریاضت اوردعاوٴں کا غیرمعمولی اہتمام

رسول اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہمہ جہت اور ہمہ گیر ہے، آپ ایک رسول تھے، داعی ومصلح تھے، حاکم وقت تھے، قاضی وفیصل تھے، قائد اور سالار لشکر تھے، آپ پر خانگی اورعائلی اور نہ جانے کون کون سی ذمہ داریاں تھیں اور آپ بیک وقت یہ ساری ذمہ داریاں اس طرح بحسن خوبی انجام دیتے تھے، کہ کہیں کوئی خلل اور کمزوری نظر نہیں آتی؛ مگر ان تمام ذمہ داریوں اور اوصاف حمیدہ میں جوسب سے نمایاں اورغالب وصف ہے وہ آپ کی عبدیت و بندگی اورذوق عبادت ہے، امن ہو جنگ ہو ، رزم ہو بزم ہو، سفر ہو حضر ہو، خلوت ہو جلوت ہو،آپ کونمازوں کا اہتمام ملے گا، روزوں کی کثرت ملے گی،عبادت ریاضت ملے گی، ذکر ومناجات ملے گی،آہ سحرگاہی اور نالہ نیم شبی ملے گا، لمبے سجدے ملیں گے، طویل دعائیں ملیں گے، رب کے حضورعجز ونیاز ملے گا،حضور کی زندگی کے جس پہلو کو بھی چاہیں اٹھالیں، کوئی پہلوبھی عبدیت وبندگی سے خالی نہیں ملے گا۔

جیساکہ اوپر واضح کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عام زندگی میں بھی آپ کی عبدیت اورذوق عبادت کا پہلو بہت ہی نمایاں اور ممتاز تھا، توپھر رمضان کے کیا کہنے! یہ تو طبع مبارک کے لیے خاص بہار ونشاط کا زمانہ تھا، ذوق عبادت اپنے عروج پر ہوتا، مشقت ریاضت بڑھ جاتی، خوف وخشیت کا غلبہ ہوتا، دعاوٴں میں الحاح وزاری کی کیفیت میں اضافہ ہو جاتا؛ یہاں تک کہ مجاہدے کے اثر اور خوف وخشیت کے غلبے سے آپ کا رنگ بد ل جاتا ؛ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں:

”کَانَ رَسُولُ اللّہِ صَلَّی اللّہُ عَلَیہِ وَآلِہِ وَسَلَّمْ إذَا دَخَلَ رَمَضَانُ تَغَیَّرَ لَونُہُ وَکَثُرَتْ صَلَاتُہُ وَابْتَہَلَ فِی الدُّعَاءِ وَأشْفَقَ مِنْہ (بیہقی شعب الایمان، رقم:۳۶۲۵)

( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت یہ تھی کہ جب رمضان داخل ہوتا توآپ کا رنگ بدل جاتا، نمازوں میں اضافہ ہوجاتا،دعاوٴں میں خوب الحاح وزاری کرتے، خوف وخشیت کا غلبہ ہوتا)

رمضان میں آپ کے یہ جومختصر حالات اس حدیث میں بیان ہوئے ان سے پتہ چلتا ہے کہ وہی شخص رمضان المبارک کی برکتوں سے صحیح طور پر فیض یاب ہو سکتا ہے جسے اس مبارک مہینے میں نیکیوں کی دھن لگی ہو، اس کے ایک لمحے کی قدر کرنے کے لیے ہمہ وقت مستعد رہتا ہو، اور آخرت کے ثواب اور جنت میں بلند مقام حاصل کرنے کے لیے اپنے راحت وآرام کوتج دیتا ہو، ہمارے بزرگوں کے واقعات کتابوں میں مذکورہیں یہ حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی پیروی کرتے ہوئے رمضان میں راحت آرام اورغیر ضروری مصروفیات کو چھوڑ کر ریاضت ومجاہدے کے لیے اپنے کو وقف کردیتے، اور اس کی برکتوں سے پوری طرح فیض یاب ہوتے۔

سحری وافطاری

دین نام ہے اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کا ، جس وقت جو حکم ہو بندہ چوں چرا کے بغیر اس کے تعمیل کے لیے آمادہ رہے، روزے میں اللہ تعالی نے دن بھر کھانے پینے اور شرم گاہ کی خواہشات کو حرام قرار دیا ہے، طلوع فجر سے لے کرغروب آفتاب کے درمیانی وقفے میں پانی کا ایک قطرہ بھی حلق سے اتر آئے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اس طرح اللہ بندوں کے جذبہ اطاعت اور صبر واستقامت کا امتحان لیتا ہے؛ مگر روزہ وقت پورا ہوتے ہی افطار کو نہ صرف جائز قرار دیتا ہے؛ بلکہ اس کی ترغیب بھی دی ہے، ان پر برکت اور خیر و مغفرت کے وعدے کیے ہیں، بندوں کے ضعف کی رعایت کرتے ہوئے افطاری میں جلدی اور سحری میں تاخیر کو افضل قرار دیا ہے؛ تاکہ روزے کا عمل ان کے لیے آسان بھی ہو اور مختصر بھی ، بندہ روزہ رکھ کر بھی اللہ کے الطاف وعنایات کا مورد بنتا ہے اور سحری اور افطار میں کھا پی کر بھی انعام ونوازش کا مستحق قرار پاتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عموماً خود بھی سحری وافطاری کا اہتمام فرماتے اور دوسروں کوبھی ترغیب دیتے؛چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

”تَسَحَّرُوْا فَإنَّ فِی السُّحُورِبَرَکَة“( صحیح مسلم : رقم۱۰۹۵)

(سحری کیا کرو، اس لیے کہ سحری میں برکت ہے)

ایک دوسروی روایت میں ہے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

” أمِرْنَا اَنْ نُعَجِّلَ ِافْطَارَنَا وَنُوَخِّرَ سُحُورَنَا“ (السنن الکبری،۴/۲۳۸)

(ہمیں اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ ہم افطار میں جلدی کریں اور سحری میں تاخیر کریں)

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

”لاَیَزَالُ النَّاسُ بِخِیْرٍ مَا عَجَّلُوْا الْاِفْطَارَ“ (صحیح مسلم رقم۱۰۹۸ وجامع الترمذی رقم۷۰۰)

(لوگ جب تک افطاری میں جلدی کرتے رہیں گے خیر کے ساتھ رہیں گے۔)

ایک حدیث قدسی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے:

”قَالَ اللّہُ تَعَالَی أحَبُّ عِبَادِیْ إليَّ أعْجَلُہُمْ فِطرًا“(جامع الترمذی رقم۷۰۰)

(اللہ تعالی فرماتاہے کہ میرے بندوں میں مجھے سب زیادہ محبوب وہ ہے جو افطار میں سب سے زیادہ جلدی کرتا ہو)

سحری میں تاخیر اور افطار میں جلدی کرنے کی فضلیت میں بہت سی رواتیں وارد ہوئیں، بعض طبیعتیں حد درجہ احتیاط پسند ہوتی ہوتیں ہیں؛ مگر سحری اور افطاری میں حد درجہ احتیاط کی وجہ سے روزہ کافی لمبا ہوسکتا ہے، جو لوگوں کے لیے باعث پریشانی ہوگا؛ اس لیے سحری میں تاخیر اور افطار میں جلدی کو مستحب قرار دیا گیا ہے؛ مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ضروری احتیاط بھی چھوڑ دی جائے اور آدمی سحری میں اتنی تاخیر اور افطار میں اتنی جلدی کرنے لگے کہ روزہ ہی مشکوک ہوجائے، سحری میں ایسی تاخیر اور افطار میں اتنی جلدی جس سے روزہ ہی مشکوک ہوجائے جائز نہیں ہے۔

کھجور یا پانی سے سحر وافطار

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو کھجور سے سحری وافطارکرنے کی ترغیب دی ہے، اور کھجور نہ ہونے کی صورت میں پانی سے افطار کی ترغیب دی ہے، جس کی وجہ سے علماء نے کھجور اور کھجور کی عدم موجودگی میں پانی سے افطار کو مسنون قرار دیا ہے،علامہ ابن القیم نے لکھا ہے کہ ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کھجور اور پانی سے روزہ افطار کی ترغیب دینا درحقیقت امت پر شفقت اور ہمدردی کی وجہ سے تھا؛ اس لیے کہ خالی معدہ میٹھی چیز کو زیادہ قبول کرتا ہے، اور جسم کو اس سے اور چیزوں کی بنسبت زیادہ توانائی حاصل ہوتی ہے، رہا پانی کا استعمال تو معدہ میں دیر سے بھوکا پیاسا رہنے کی وجہ سے خشکی پیدا ہوجاتی ہے، شروع میں تھوڑا پانی استعمال کرنے سے معدے میں تری پیدا ہوجاتی ہے، جس سے بعد میں کھائی جانی والی غذا زیادہ صحت بخش ہوجاتی ہے، یہ تو جسمانی فائدہ ہوا، کھجور اور پانی کے ایک ساتھ استعمال سے کچھ ایسی خاصیت بھی پیدا ہوجاتی ہے جو قلب کے صلاح میں بھی موثرہے، اہل اللہ پر یہ تاثیر مخفی نہیں۔“(زاد المعاد:۱/۲۷۷)

ابن القیم رحمة اللہ علیہ نے زاد المعاد میں ایک حدیث بھی نقل فرمائی ہے جس میں یہ صراحت ہے کہ حضو رصلی اللہ علیہ وسلم بھی افطار میں کھجور یا پانی کا استعمال فرماتے تھے،حدیث کے الفاظ یہ ہیں:

”کَانَ صَلَّی اللَہُ  یُفْطِرُ عَلَی رُطَبَاتٌ قَبْلَ اَنْ یُصَلِّیَ ، فَاِنْ لَمْ تَکُنْ رُطَبَاتٌ فَتَمَرَاتٌ، فَاِنْ لَمْ یَکُنْ تَمَرَاتٌ حَسَا حَسَوَاتٍ مِنْ مَاءٍ“ (سنن ابی داوٴد رقم:۲۳۵۶ وجامع الترمذی رقم:۶۹۶)

”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز مغرب کی ادائیگی سے پہلے چند تر کھجوروں سے افطار فرماتے تھے، اگر تر کھجوریں نہ ہوتیں توچند چھوہاروں سے افطار کرتے اور اگر چھوہارے بھی نہ ہوتے توآپ پانی کے چند گھونٹ نوش فرماتے۔“

ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے صحابہ کو کھجور اور پانی کی ترغیب دیتے ہوا ارشا د فرمایا:

”إذا افطر أحدکم فَلْیُفْطِرْ علی تَمَرٍ؛ فإنَّہ برکةٌ، فإنْ لم یَجِدْ فَلْیُفْطِرْ علی ماءٍ؛ فإنّہ طہور“ (جامع الترمذی ، رقم: ۶۵۸)

(تم میں جب کوئی افطار کرے تو کھجور سے کرے؛ اس لیے کہ کھجور میں برکت ہے، پس اگر کھجور میسر نہ ہو تو پانی سے افطار کرلے؛ اس لیے کہ پانی نہایت پاک چیز ہے)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

” نِعْمَ سُحُورُ المُومِنِ التَّمَرُ“(سنن أبی داوٴد، رقم:۲۳۴۵)

(کھجور مومن کے لیے کیا بہترین سحری ہے !)

قیام اللیل اور تروایح

انسان درحقیقت دو عنصر سے بنا ہے ، ایک اس کا حیوانی وجود ہے، جس کی وجہ سے انسان میں کھانے پینے راحت وآرام کے تقاضے اور جنسی خواہشات ہوتی ہیں، اور انسان کا ایک ملکوتی اور روحانی وجود ہے جس سے انسان میں ذوق عبادت ، طاعت وبندگی ، اللہ کے احکام کی بجاآوری اور اس کی حمد وثنا کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، حیوانی وجود انسان کو پستی کی طرف  دھکیلتا ہے ،جب کہ روحانی اور ملکوتی عنصر آدمی کو بلندی اور اللہ کے قرب کی طرف کھینچتا ہے، روزے میں انسان کھانا پینا اور جنسی شہوتوں کو ترک کرکے اپنے حیوانی اور بہیمی عنصرکو کمزور اور روحانی وملکوتی عنصر کو صحت مند اور توانا بناتا ہے اور پھر اس پر مزید عبادتوں کا اہتمام کرکے ملکوتی وجود کو پیہم ایمانی غذا دیتاہے؛ تاکہ اس کا روحانی وجود غالب اور حیوانی وجود مغلوب ہوجائے کہ یہی انسان کی دنیوی واخروی سعادت کا ذریعہ ہے، رمضان میں مختلف عبادتوں کااہتمام کرایا جاتا ہے، جس میں ایک عبادت قیام اللیل اور تراویح کی نماز ہے، رسول اللہ خود بھی قیام اللیل کا اہتمام کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے، چنانچہ” عبادت وریاضت کے اہتمام“ کے عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ حالات گذر چکے ہیں:

(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت یہ تھی کہ جب رمضان داخل ہوتا تو آپ کا رنگ بدل جاتا، نمازوں میں اضافہ ہوجاتا، دعاوٴں میں الحاح وزاری کرتے، خوف وخشیت کا غلبہ ہوتا)

اس ارشاد میں یہ وضاحت ہے کہ رمضان میں آپ کی نمازیں اور دنوں کے مقابلے میں بڑھ جاتی تھیں اس سلسلے کی بعض اور روایات بھی پیش کی جاتی ہیں؛ چنانچہ حضرت ابوہریرة رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرَغِّبُ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَهُمْ فِيهِ بِعَزِيمَةٍ فَيَقُولُ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ ثُمَّ كَانَ الْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ فِي خِلَافَةِ أَبِي بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ عَلَى ذَلِكَ(صحیح مسلم، رقم۷۵۹ )

”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیام رمضان کی ترغیب دیتے وجوب کا حکم نہیں، آپ فرماتے : جوشخص رمضان کی راتوں میں نماز تراویح پڑھے اللہ پر ایمان رکھتے اور اس سے ثواب کی امید کرتے ہوئے تو اللہ اس کے سابقہ گناہوں کا معاف کردے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک یہی عمل رہا، دور صدیقی اور ابتداء دور فاروقی میں بھی یہی عمل رہا“

اور ایک روایت میں ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِي الْمَسْجِدِ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَصَلَّى بِصَلَاتِهِ نَاسٌ ثُمَّ صَلَّى مِنْ الْقَابِلَةِ فَكَثُرَ النَّاسُ ثُمَّ اجْتَمَعُوا مِنْ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ أَوْ الرَّابِعَةِ فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ قَدْ رَأَيْتُ الَّذِي صَنَعْتُمْ فَلَمْ يَمْنَعْنِي مِنْ الْخُرُوجِ إِلَيْكُمْ إِلَّا أَنِّي خَشِيتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْكُمْ قَالَ وَذَلِكَ فِي رَمَضَانَ (صحیح مسلم، رقم:۷۶۱)

”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (رمضان کی) ایک رات مسجد میں نماز تراویح پڑھی ، لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی، پھر دوسری رات جب آپ نے نماز پڑھی تو مقتدی زیادہ ہوگئے ، تیسری یا چوتھی رات آپ نماز تراویح کے لیے تشریف نہ لائے، اور صبح کو فرمایا:میں نے تمہارا وہ شوق دیکھا جس کا مظاہرہ تم نے رات میں کیا، اور میں اس ڈر سے نہیں آیا کہ کہیں یہ نماز تم پر رمضان میں (تراویح) فرض نہ کردی جائے“

مذکورہ بالا احادیث چند باتیں معلوم ہوئیں (۱) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے سات چند رات تراویح باجماعت پڑھی، (۲) پھر جب لوگوں کا شوق دیکھا تو اس اندیشہ سے جماعت ترک کردی کہ کہیں تراویح باجماعت فرض نہ ہوجائے(۳) حضورصلی اللہ علیہ نے جماعت کا اہتمام گرچہ ترک کردیا؛ لیکن خود بھی رمضان کی راتوں میں نمازوں کثرت رکھتے تھے اور لوگوں کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے(۴) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ترغیب دلانے سے لوگ خود حضور کی حیات طیبہ اور اس کے بعد دور صدیقی اور دور فاروقی کے ابتدائی زمانے میں اپنے اپنے طور پر تروایح کا اہتمام کرتے تھے(۵) نماز تروایح میں انتہائی ذوق وشوق کا مظاہرہ کیا کرتے تھے (۶) تروایح اگر اخلاص کے ساتھ ادا کی جائے تواس سے عمر بھر کے گناہ (صغیرہ) معاف ہوجاتے ہیں۔

تروایح حضورﷺ نے چند روز باجماعت پڑھائی تھی اور پھر فرض کے خوف سے ترک کردیا تھا، آپ کی وفات کے بعد فرضیت کا اندیشہ ختم ہوگیا تھا؛ اس لیے حضرت عمرؓ نے اپنے دور حکومت میں چند سالوں کے بعد اس کو حضور صلی اللہ علیہ کے ابتدائی طریقے کے مطابق باجماعت شروع کردیا، جسے صحابہ نے پسند فرمایا اور وہی طریقہ امت میں آج تک چلا آرہا ہے۔

بہر حال تروایح رمضان کا بہت اہم اور مبارک عمل ہے، اس کی ادائیگی مغفرت کا ذریعہ اور باعث اجر و ثواب ہے اور اس سے غفلت بہت بڑی محرومی کا سبب ہے۔

تہجد کا اہتمام

تہجد کی نماز اللہ تعالی نے بندوں کے ضعف کی رعایت کرتے ہوئے گو فرض نہیں کی ہے؛ مگر اس کے فضائل اور اس کا ثواب بہت زیادہ ہے اور نفس کی سرکشی کا دورکرنے میں اس کا بڑا اہم کردار ہے ، احادیث میں اس نماز کی بڑی تاکید وارد ہوئی ہیں، خود اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں بڑے زور دار انداز میں اس کی تاکید کی ہے، سورہ مزمل کی ابتدائی آیات اس کی تاکید وترغیب اور اہمیت فضیلت کے بیان میں وارد ہوئی ہیں، تہجد کا فائدہ بتاتے ہوئے اللہ رب العزت نے فرمایا:

”اِنَّ نَاشِئَةَ اللَّیْلِ ہِيَ اَشَدُّ وَطْاً وَاَقْوَمُ قِیْلاً“‘(المزمل:۶)

” بیشک رات کے وقت اٹھنا ہی ایسا عمل ہے جس سے نفس اچھی طرح کچلا جاتا ہے، اور بات بھی بہتر طریقے پر کہی جاتی ہے“

( یعنی رات کو اٹھ کر تہجد کی نماز پڑھنے سے انسان کے لیے اپنی نفسانی خواہشات پر قابو پانا آسان ہو جاتا ہے، اور رات کے وقت چوں کہ شور وغل نہیں ہوتا؛ اس لیے تلاوت اور دعا ٹھیک ٹھیک اور حضور قلب کے ساتھ ادا ہوتی ہے، دن کے وقت یہ فائدے کم ہوتے ہیں)

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو تہجد کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

”عَلَیْکُمْ بِقِیَامِ اللَّیْلِ فَإنَّہُ دَأبُ الصَّالِحِیْنَ قَبْلَکُمْ“( سنن النسائی ، رقم:۳۵۴۹)

(لوگو! رات میں اللہ کے حضور نمازوں میں کھڑے ہونے کو لازم پکڑلو؛ اس لیے کہ یہ تم سے پہلے نیکوں کا طریقہ رہا ہے)

تہجد آپ عام دنوں میں بھی پڑھتے تھے اور رمضان میں بھی اس کا اہتمام فرماتے تھے؛چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:

”مَاکَانَ یَزِیدُ فِی رَمَضَانَ وَلَافِیْ غَیْرِہِ عَلَی أحَدَ عَشَرَةَ رَکَعَةً یُصَلِّی أرْبَعًا فَلاَتَسَلْ عَنْ حُسْنِہِنَّ وَطُوْلِہِنَّ ، ثُمَّ یُصَلِّی أرْبَعًا فَلا تَسَلْ عَنْ حُسْنِہِنَّ وَطُوْلِہِنَّ ، ثُمَّ یُصَلِّی ثَلاثًا“ (صحیح البخاری، رقم۲۰۱۳)

(رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم رمضان اور رمضان کے علاوہ میں بھی گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے،آپ چار رکعت ایک ساتھ پڑھتے ،مت پوچھیے یہ چار رکعتیں کتنی اچھی اور کتنی لمبی ہوتی تھیں، پھرآپ مزید چار رکعت ایک ساتھ پڑھتے ،مت پوچھیے کہ یہ چار رکعتیں کتنی اچھی اور کتنی لمبی ہوتی تھیں ، پھر آپ تین رکعتیں پڑھتے تھے)

اس حدیث میں کل گیارہ رکعت کا ذکر ہے، جس میں آٹھ رکعتیں تہجد کی ہیں، اورتین رکعتیں وتر کی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ کاعام معمول آٹھ رکعت تہجد پڑھنے کا ہی تھا؛ مگر بعض اوقات آپ نے بارہ اور چار رکعت بھی ادا فرمائی ہے۔

عام دنوں میں تہجد کی ادائیگی قدرے مشکل کام ہے، رات کے آخری پہر میں نیند گہری ہوتی ہے، ایسی گہری اور میٹھی نیند کو قربان کرکے تہجد ادا کرنا طبیعت کے لیے خاصا دشوار ہے؛ مگر رمضان میں سحری کے لیے ہر کوئی بیدار ہوتا ہے ، تہجد اور تلاوت کا ایک ماحول ہوتا ہے، لہٰذا رمضان میں تہجد کی ادائیگی بہت ہی آسان ہے، بس ذرا اس طرف توجہ کی ضرورت ہے ، یہ نماز بڑے فضائل رکھتی ہے ، کم از کم رمضان میں ان فضائل کے حاصل کرنے کا اہتمام تو کرنا ہی چاہیے، افسوس کہ بہت سے لوگ اپنی ذرا سی غفلت کی وجہ سے بہت بڑے خیر سے محروم رہ جاتے ہیں۔

عشرة اخیرہ میں خصوصی اہتما م اور گھر والوں کو شب بیداری کی ترغیب

یوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا رمضان عبادت وریاضت کے لیے وقف تھا؛ مگر عشرہ اخیرہ میں یہ اہتمام مزید بڑھ جاتا تھا، راتوں رات عبادت میں مشغول رہتے، گھر والوں کو بھی جگاتے اور نماز وعبادت میں مشغول ہونے کی ترغیب دیتے؛چنانچہ حدیث پاک میں وارد ہے:

”کَانَ رَسُولُ اللّہِ صَلَّی اللّہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ إذَا دَخَلَ الْعَشْرُ أحْیَا اللَّیلَ وَأیْقَظَ أہَلَہُ وَشَدَّ الْمِئْزَر“َ(جامع الترمذی، رقم:۷۹۵ ومسند أحمد، رقم:۱۱۰۵)

”جب آخری عشرہ شروع ہوتا تو آپ راتوں کو عبادت سے آباد کرتے،اپنے گھر والوں کو عبادت کے لیے بیدار کرتے،اور کمر کس لیتے“

(کمر کس لینے کا یہاں دو مفہوم ہوسکتا ہے، ایک تو یہ کہ آپ بیویوں سے ملنا ملانا بھی ترک کردیتے اور ہمہ وقت صرف یاد الہی میں مصروف رہتے، اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ آپ عبادت وریاضیت کے لیے حد درجہ مستعد ہوجاتے تھے)

ایک دوسری حدیث میں ہے، حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں:

”کَانَ رَسُولُ اللّہِ صَلَّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَجْتَہِدُ فِیْ الْعَشْرِ الَاوَاخِرِ مَا لَا یَجْتَہِدُ فِیْ غَیْرِہَا ( صحیح مسلم رقم ۱۱۷۵)

”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں عباد ت وغیرہ میں وہ مجاہدہ کرتے اور وہ مشقت اٹھاتے جو دوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے“

کیا ہی اچھا ہو کہ آدمی رمضان کے آخری عشرے کی برکتوں اور سعادتوں سے خود بھی زیادہ سے زیادہ حصہ پائے اور اپنے گھر والوں کو بھی اس کی ترغیب دے ، آخر دنیا کی بھلائیوں میں ہم اپنے گھر والوں کو یاد رکھتے ہی ہیں اور ان کوزیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کے لیے فکر مند رہتے ہیں، تو پھر ان کی آخرت کی بھلائی کے لیے ان کے تئیں فکرمند کیوں نہ ہوں۔

قرآن کریم کی تلاوت اور اس کا سننا سنانا

رمضان کے بابرکت مہینے کو قرآن پاک سے بڑی مناسبت ہے، قرآن پاک کی تصریح کے مطابق اللہ تعالی نے اپنے اس پاکیزہ کلام کو لوح محفوظ سے آخری آسمان پر اتارنے کے لیے اسی مبارک مہینے اور اس کی بابرکت رات شب قدر کا انتخاب فرمایا،احادیث سے بھی قرآن اور روزے میں خاص تعلق کا پتہ چلتا ہے،چنانچہ وارد ہے:

”اَلصِّیَامُ وَالْقُرْآنُ یَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، یَقُوْلُ الصِّیَامُ: أيْ رَبِّ مَنَعْتُہُ الطَّعَامَ وَالشَّہْوَةَ فَشَفِّعْنِيْ فِیْہِ، وَیَقُولُ الْقُرْآنُ: مَنَعْتُہُ النَّوْمَ بِاللَّیْلِ، فَشَفِّعْنِيْ فِیہِ، قَالَ: فَیَشْفَعَانِ (مسند احمد رقم۶۶۲۶ الطبرانی رقم۱۴۶۷۲)

”روزہ اور قرآن دونوں قیامت کے دن بندے کی سفارش کریں گے، روزہ کہے گا،اے رب میں نے اس بندے کو کھانے اور خواہشات سے روکا ہے؛ لہٰذا تو اس کے بارے میں میری سفارش قبول فرما،اور قرآن کہے گا میں نے اس بندے کو رات میں سونے سے روکا ہے (یعنی راتوں کو جاگ کر تراویح اور نفلوں میں قرآن پڑھتا تھا) لہٰذا اس کے بارے میں میری سفارش کوقبول فرما، اللہ کے رسول نے فرمایا تو یہ دونوں ہی سفارش کریں گے“

راتوں کو نوافل میں قرآن کریم کی تلاوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دائمی معمول تھا، رمضان میں آپ کا یہ معمول مزید بڑھ جاتا تھا، پھر رمضان المبارک میں حضرت جبرئیل خاص طورسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ مل کر قرآن سنتے اور سناتے تھے؛ چنانچہ حدیث پاک میں وارد ہے:

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ کَانَ رَسُولُ اللّہُ صَلَّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ أجْوَدَ النَّاس،ِ وَکَانَ اَجْوَدََ مَایَکُونُ فِیْ رَمَضَانَ حِیْنَ یَلْقَاہْ جِبْرِیْلُ، وَکَانَ جِبْرِیْلُ یَلْقَاہُ فِی کُلِّ لَیْلَةٍ مِنْ شَہْرِ رَمَضَانَ فَیُدَارِسُہُ الْقُرْآنَ، قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللّہِ حِیْنَ یَلْقَاہُ جِبْرِیْلُ عَلَیہِ السَّلَامُ أجْوَدَ بِالْخَیرِ مِن الرِّیْحِ الْمُرْسَلَةِ(سنن النسائی، رقم:۲۰۹۴)

” حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیر کی بخشش اور خلق کی نفع رسانی میں اللہ کے سب بندوں سے فائق تھے،اور رمضان مبارک میں آپ کی یہ کریمانہ صفت اور زیادہ ترقی کر جاتی تھی، رمضان میں ہر رات جبریل امین آپ سے ملتے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو قرآن مجید سناتے تھے، تو جب جبریل آپ سے ملتے تھے تو آپ کی اس کریمانہ نفع رسانی اور خیر کی بخشش میں اللہ کی بھیجی ہوئی ہواوٴں سے بھی زیادہ تیزی آجاتی اور زور پیدا ہوتا“

اس حدیث پاک سے معلو م ہوا کہ حضو رصلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں نہ صرف تلاوت کرتے تھے، بلکہ حضرت جبریل علیہ السلام کو قرآن سناتے بھی تھے، لہٰذا رمضان میں حفاظ کرام قرآن کے پاک سننے اور سنانے کا جو اہتمام کرتے ہیں وہ دوہرے اجر کے مستحق ہوتے ہیں ، ایک اجر قرآن سننے اور سنانے کا اور دوسرا رسو ل اللہ صلی علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کو زندہ کرنے کا؛ لہٰذا اس کا زیادہ سے زیادہ اہتمام ہونا چاہیے۔

صدقات وخیرات اور نفع رسانی کی کثرت

رمضان مبارک میں نیکیوں کا اجر بڑھ جاتا ہے؛ لہٰذا ذکرو تلاوت دعا وتسبیح اور نماز کی کثرت واہتمام کے ساتھ اپنی بساط بھر زیادہ سے زیادہ صدقہ وخیرات کا بھی اہتمام کرنا چاہیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف احادیث میں اس کی ترغیب دی ہے ، روزہ داروں کو روزہ افطار کرانے پر بڑے اجر وثواب کے وعدے کیے گئے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں یوں ہی سخاوت دادودہش اور لوگوں کا حاجت روائی کا اہتمام کچھ کم نہ تھا؛ مگر رمضان میں آپ کی طبیعت پر کچھ عجیب کیف و نشاط کا عالم طاری رہتا؛ چنانچہ جہاں آپ کے اوراعمال میں اضافہ ہوتا، وہیں آپ کی جود وسخا اور لوگوں کو دینی ودنیاوی فائدہ پہنچانے کا جذبہ بھی بہت بڑھ جاتا تھا جس سے ہر کوئی فیض یاب ہوتا، اوپر کی حدیث میں مذکور یہ الفاظ ایک بار پھر پڑھیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جود وسخا اور جذبہ نفع رسانی کا کچھ اندازہ لگائیے :

”قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللّہِ حِیْنَ یَلْقَاہُ جِبْرِیْلُ عَلَیہِ السَّلَامُ أجْوَدَ بِالْخَیرِ مِن الرِّیْحِ الْمُرْسَلَةِ“ ( سنن النسائی، رقم:۲۰۹۴)

”فرمایا: جب جبریل آپ سے ملتے تھے توآپ کی اس کریمانہ نفع رسانی اور خیر کی بخشش میں اللہ کی بھیجی ہوئی ہواوٴں سے بھی زیادہ تیزی آجاتی اور زور پیدا ہوتا“

جس طرح بارش سے پہلے آنے والے ٹھنڈی ہواوٴں کے مست جھونکے ہر کسی کے بدن کو چھوتے اور اس کے دل کے خوش کردیتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی جود وسخا کے بابرکت جھونکے اس سے کہیں زیادہ لوگوں کو فیضاب کرتے اور ان کے لیے باعث فرحت وشادمانی بنتے ہیں؛ لہٰذا امت کے افراد کو اپنی اپنی بساط کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرنی چاہیے،اور صدقہ وخیرات اور خیر کی تعلیم کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

اعتکاف

رمضان المبارک رب کریم کی عطا، اس کی داد ودہش ، اس کی عنایت خسروانہ اور الطاف کریمانہ کا موسم بہار اور اس کے عفو درگذر کوحاصل کرنے کا خاص سیزن ہے، اور اعتکاف ان عظیم سوغاتوں اور نوازشوں کے سمیٹنے کا سب سے بڑا اور اہم ذریعہ ہے، اعتکاف کیاہے؟ اعتکاف نام ہے ہر طرف سے یکسو ہو کر مولا کے گھر پڑجانے کا، اس کے در دولت کی چوکھٹ کو تھام کر اس کو منانے اور اس سے مانگنے کا اور اس کے کرم کی بارش سے اپنے دامن مراد کو بھرنے کا، دوسری ساری عبادتیں آدمی کچھ وقت تک ہی انجام دے سکتاہے، جہاں کسی اور کام میں مشغول ہوا عبادت کا سلسلہ رک جاتا ہے؛ لیکن اعتکاف ایک ایسی عبادت ہے جس میں آدمی سوتے جاگتے ، کھاتے پیتے اور بات کرتے ہر وقت عبادت میں ہوتا ہے، دوران اعتکاف کسی اور کار خیر یاعبادت میں مشغول ہوجائے تو کیا کہنے! سونے پر سہاگا، نور علی نور؛ بلکہ بعض احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ آدمی اعتکاف کی وجہ سے جن نیکیوں کے کرنے سے مجبور ہو جاتا ہے اس کے نامہٴ اعمال میں اللہ کے حکم سے ان نیکیوں کا بھی ثواب لکھا جاتا ہے ۔( معارف الحدیث:۴/۱۲۲) کیا نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی رمضان کے اخیر عشرے میں اعتکاف کا اہتمام کرتے اور دسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے،اعتکاف کے فضائل بہت زیادہ ہیں، کسی بھی مسلمان کو اس کے محروم نہیں رہنا چاہیے ، اگر ہر رمضان میں اس کی توفیق ہو جایا کرے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک معمول تھا تو کیا کہنے! قابل رشک ایسے لوگ؛ لیکن اگر حالات اس کی اجازت نہیں دیتے، تو پھر کسی کسی سال تو اس کا اہتمام ضرور ہونا چاہیے، آدمی روزی روٹی کی خاطر سالہا سال کے لیے بیوی بچے وطن اور نہ جانے کیا کیا چھوڑ دیتا ہے، جنت کے حصول اور جہنم سے نجات کے لیے چند دن کے لیے گھر چھوڑ کر مسجد میں پڑ جانا کوئی اتنا مشکل کام نہیں ہے، بس ہمت اور ارادے کی ضرورت ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:

”اِنَّ النَّبِیَّ صَلّی اللّہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَعْتَکِفُ الْعَشْرَ الأوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتّی تَوَفّاہُ اللّہُ، ثُمَّ اعْتَکَفَ اَزْوَاجُہُ مِنْ بَعْدِہ“ِ( صحیح البخاری، رقم:۱۹۲۲)

”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دن کا اعتکاف کیا کرتے تھے ،آپ کا یہ معمول جاری رہا؛ یہاں تک کہ اللہ تعالی نے آپ کو وفات دے دی ، پھر آپ کے بعد آپ کی بیویوں نے (اپنے گھر کے معتکف میں) اعتکاف کے معمول کو جاری رکھا۔“

حضرت ابوہریرة رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

”کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّہُ عَلَیہِ وَسَلّمَ یَعْتَکِفُ کُلَّ رَمَضَانَ عَشَرَةَ اَیَّامٍ ، فَلَمَّا کَانَ الْعَامُ الَّذِیْ قُبِضَ فِیہِ اِعْتَکَفَ عِشْرِیْنَ یَوماً“(صحیح البخاری ، رقم:۱۹۳۹)

”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان میں دس دن اعتکاف کرتے تھے، جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا“

آداب صوم کی تلقین

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت براہ راست اللہ تعالی نے خود فرمائی؛ اس لیے آپ کی فطرت اعلی اخلاق کے بہترین سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی ، اللہ تعالی کا ارشادہے ”وَاِنَّکَ لَعَلَی خُلُقٍ عَظِیمٍ“ (القلم:۶۸)( اے نبی ! بلاشبہ آپ زبردست اخلاق کے حامل ہیں) رمضان تو خیر رمضان ہی ہے، آپ اپنی عام زندگی میں بھی بدگوئی ، غیبت، بہتان تراشی اور بیہودہ وفضول قسم کی باتوں سے ہمیشہ پاک وصاف رہے، آپ امت کو بھی ان برائیوں سے دور رکھنا چاہتے تھے؛ چنانچہ لوگوں کو ان سے آگاہ کرتے، رمضان میں خاص طور پر ان سے دور رہنے کی تلقین فرمائی ہے؛ اس لیے کہ ان برائیوں سے پرہیز کیے بغیر روزہ ضابطے میں گو ادا ہوجاتا ہے؛ مگر روزے کے جو فوائد وثمرات ہیں ، اس کی جو اصل روحانی برکتیں ہیں،اور اس کے ذریعے ہمارے نفس کی جس طرح کی تربیت مقصود ہے وہ ان برائیوں سے بچے بغیر حاصل نہیں ہوتی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

”اَلصِّیامُ جُنَّةٌ، فَإذَا کَانَ أحَدُکُمْ صَائمًا فَلا یَرْفَثْ، وَلَا یَجْہَلْ، فَإنِ امْرُوٌٴ شَاتَمَہُ أوْ قَاتَلَہُ فَلْیَقُلُ إنِّیْ صَائِمٌ“(صحیح البخاری رقم:۱۸۹۴)

”روزہ ( نفس اور شیطان کے حملوں سے بچاوٴ کے لیے ) ڈھال ہے، اور جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو چاہیے کہ وہ بیہودہ اور فحش باتیں نہ بکے، اور نہ حماقت ونادانی کرے اور اگر کوئی دوسرا اس سے گالی گلوج یا جھگڑا کرے تو کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں“ (اوریہ کہہ کر کنارہ کش ہوجائے)

ایک دوسری حدیث میں آپ نے ارشاد فرمایا:

مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ، وَالْعَمَلَ بِہِ فَلَیْسَ لِلّہِ حَاجَةٌ فِی أنْ یَدَعَ طَعَامَہَ وَشَرَابَہُ (صحیح البخاری، رقم:۱۹۰۳)

”جو آدمی روزہ رکھتے ہوئے باطل کلام اور باطل کام نہ چھوڑے تواللہ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں“

رمضان میں حضور کے معمولات کے تعلق سے یہ چند موٹی موٹی باتیں پیش کی گئیں، اللہ تعالی ان کوسب کے لیے نافع اورمفید بنائے، اور ہم سبھی کو ان پر زیادہ سے زیادہ عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے آمین!

شیئر کریں

رائے

فہرست

اپڈیٹ شدہ

اشتراک کریں

سبسکرائب کریں

نئے اپڈیٹس بارے معلومات حاصل کریں۔ اپنا ای میل ایڈریس درج کریں اور سبسکرائب بٹن دبائیں۔ شکریہ

سوشل میڈیا

مشہور مدارس