طالبان علوم نبوت کیلئے خصوصاً اپنے دور طالب علمی میں اوقات کی حفاظت نہایت ضروری ہے۔ وقت اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں ایک گرانقدر نعمت ہے، پگھلتے برف کی طرح آناً فاناً گذرتا رہتا ہے، دیکھتے ہی دیکھتے تیزی کے ساتھ مہینے اور سال گذر جاتے ہیں۔
صبح ہوئی شام ہوئی
عمر یونہی تمام ہوئی
پس وقت کی قدردانی بہت ضروری ہے، وقت کو صحیح استعمال کرنا، بیکار اور فضول ضائع ہونے سے بچانا ازحد ضروری ہے، وقت کو فضول ضائع کردینے پر بعد میں جو حسرت و پچھتاوا ہوتا ہے وہ ناقابل تلافی ہوتا ہے۔ سوائے ندامت کے اس کے تدارک کی کوئی صورت نہیں رہتی۔ جو لمحہ اور گھڑی ہاتھ سے نکل گئی وہ دوبارہ ہاتھ میں نہیں آسکتی، لہٰذا عقلمندی کاکام یہ ہے کہ آغاز ہی میں انجام پر نظر رکھے، تاکہ حسرت و پچھتاوے کی نوبت نہ آئے۔
ہے وہ عاقل جو کہ آغاز میں سوچے انجام
ورنہ ناداں بھی سمجھ جاتا ہے کھوتے کھوتے
حدیث میں ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں کہ جب وہ طلوع ہوتا ہو مگر یہ کہ وہ پکار پکار کر کہتا ہے کہ اے آدم کے بیٹے! میں ایک نوپید مخلوق ہوں، میں تیرے عمل پر شاہد ہوں، مجھ سے کچھ حاصل کرنا ہو تو کرلے، میں قیامت تک لوٹ کر نہیں آؤں گا۔ دنیا کی تمام چیزیں ضائع ہوجانے کے بعد واپس آسکتی ہیں۔ لیکن ضائع شدہ وقت واپس نہیں آسکتا۔
کہنے والے نے صحیح کہا ہے ”اَلْوَقْتُ اَثْمَنُ مِنَ الذَّہَبِ“ وقت سونے سے زیادہ قیمتی ہے۔ ایک عربی شاعر کہتا ہے:
حَیَاتُکَ اَنْفَاسٌ تُعَدُّ فَکُلَّمَا * مَضٰی نَفَسٌ مِنْہَا اِنْقَضَتْ بِہ جُزْء
تیری زندگی چند محدود گھڑیوں کا نام ہے، ان میں سے جو گھڑی گذرجاتی ہے، اتنا حصہ زندگی کا کم ہوجاتا ہے۔
لہٰذا وقت کی پوری نگہداشت کرنا چاہئے، کھیل کود میں خرافات میں، ادھر ادھر کی باتوں میں اور لغویات میں قیمتی اوقات کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”مِنْ حُسْنِ اِسْلاَمِ الْمَرْءِ تَرْکُہ مَالاَ یَعْنِیْةِ“ آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی کو چھوڑ دے۔
اس حدیث میں لطیف پیرایہ میں اضاعت اوقات سے ممانعت اورحفاظت اوقات کے اہتمام کی طرف اشارہ ہے کہ آدمی ہر ایسے قول وعمل اور فعل و حرکت سے احتراز کرے جس سے اس کا خاطر خواہ اورمعتد بہ دینی یا دنیوی فائدہ نہ ہو۔
وقت ایک عظیم نعمت ہے
وقت اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ قیمتی سرمایہ ہے۔ اس کی ایک ایک گھڑی اورہرسکنڈ اور منٹ اتنا قیمتی ہے کہ ساری دنیا بھی اس کی قیمت ادا نہیں کرسکتی، لیکن آج ہم وقت کی کوئی قدر نہیں کرتے کہ یونہی فضول باتوں میں اور لغو کاموں میں ضائع کردیتے ہیں۔
ایک بزرگ کہتے ہیں کہ ایک برف فروش سے مجھ کو بہت عبرت ہوئی، وہ کہتا جارہا تھا کہ اے لوگو! مجھ پر رحم کرو، میرے پاس ایسا سرمایہ ہے جو ہر لمحہ تھوڑا تھوڑا ختم ہوجاتا ہے۔ اس طرح ہماری بھی حالت ہے کہ ہر لمحہ برف کی طرح تھوڑی تھوڑی عمر ختم ہوتی جاتی ہے۔ اسے پگھلنے سے پہلے جلدی بیچنے کی فکر کرو۔
حضرت مفتی محمود الحسن صاحب کے پاس ایک طالب علم نے آکر کھیل کے متعلق سوال کیا، حضرت نے فرمایا کیوں کھیلتے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ وقت پاس کرنے کو کھیلتے ہیں، اس پر فرمایا کہ وقت پاس کرنے کیلئے یہاں آجایا کریں، وقت گذارنے کا طریقہ بتلادوں گا۔ کتاب دیدوں گا کہ یہاں سے یہاں تک یاد کرکے سنائیں، اس کے بعد فرمایا وقت حق تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے، اسے غبار سمجھ کر پھینک دینا بڑی ناقدری ہے، یہ ایسا ہی ہے جیسے اشرفیوں کا ڈھیر کسی کے سامنے ہو اور وہ ایک ایک اٹھاکر پھینکتا رہے۔
تیرا ہر سانس نخل موسوی ہے
یہ جزرومد جواہر کی لڑی ہے
ہمارے اسلاف اور حفظ اوقات
ہمارے اسلاف کی زندگی میں اوقات کی اہمیت اور قدر دانی نمایاں طریقہ پر تھی، کوئی گھڑی اور لمحہ ضائع نہیں ہوتا تھا۔ یہی وہ چیز تھی جس نے ان کو اعلیٰ درجہٴ کمال پر پہنچایا تھا۔
امام محمد علیہ الرحمہ کے حالات میں لکھا ہے کہ دن و رات کتابیں لکھتے رہتے تھے۔ ایک ہزار تک ان کی تصانیف بتائی جاتی ہیں۔ اپنے تصنیف کے کمرے میں کتابوں کے ڈھیر کے درمیان بیٹھے رہتے تھے۔ مشغولیت اس درجہ تھی کہ کھانے اور کپڑے کا بھی ہوش نہ تھا۔ (انوارالباری)
حضرت مولانا عبدالحئی فرنگی محلی کی جو مطالعہ گاہ تھی، اس کے تین دروازے تھے، ان کے والد نے تینوں دروازوں پر جوتے رکھوائے تھے تاکہ اگر ضرورت کے لئے باہر جانا پڑے تو جوتے کیلئے ایک منٹ، آدھا منٹ ضائع نہ ہو۔
حضرت علامہ صدیق احمد صاحب کشمیری اپنی طالب علمی کے زمانے میں صرف روٹی لیتے تھے، سالن نہ لیتے تھے، روٹی جیب میں رکھ لیتے تھے، جب موقع ہوتا کھالیتے اور فرماتے روٹی سالن کے ساتھ کھانے میں مطالعہ کا نقصان ہوتا ہے۔
شیخ جمال الدین قاسمی کے بارے میں لکھا ہے کہ شیخ اپنی زندگی کے ایک ایک لمحہ کی قدر فرماتے تھے۔ سفر میں ہو، یا حضر میں، گھر میں ہو یا مسجد میں، مسلسل مطالعہ اور تالیف کا کام جاری رکھتے تھے، سوانح نگاروں نے لکھا ہے:
مَضٰی رَحِمَہ اللّٰہ یَکْتُبُ دُوْنَ اِنْقِطَاعٍ فِی اللَّیْلِ وَفِی النَّہَارِ، وَفِی الْقِطَارِ، وَفِی النُّزْہَةِ، فِی الْعَرَبَةِ فِی الْمَسْجِدِ، فِی سُدَّتِہِ فِی بَیْتِہِ، وَاَظُّنُّ اَنَّ الطَّرِیْقَ وَحْدَہ ہُوَ الَّذِیْ خَلاَ مِنْ قَلَمِہِ وَقَدْ کَانَ فِی حَبِیْبِہِ دَفْتَرٌ صَغِیْرٌ وَقَلَمٌ، یُقَیِّدُ الْفِکْرَةَ الشَّارِدَةَ ․
(یعنی اللہ ان پر رحم فرمائے ہر وقت لکھتے رہتے تھے، کیا دن، کیا رات، کیاسفر کیا حضر، کیا مسجد، کیاگھر، میرا خیال تو یہ ہے کہ سوائے دوران رفتار کے کسی اور وقت ان کے قلم کو قرار نہیں تھا۔ ان کے جیب میں ایک نوٹ بک اور قلم پڑا رہتا تھا، جسکے ذریعہ وہ اپنے منتشر افکار کو محفوظ کرلیتے تھے۔)
جولوگ بازاروں میں، چائے خانوں میں بیٹھ کر گپ شپ کرتے رہتے تھے، ان کو دیکھ کر حسرت فرماتے اور عجیب بات فرماتے، تذکرہ نگار لکھتے ہیں:
وَقَدْ تَخَسَّرَ مَرَّةً وَہُوَ وَاقِفٌ اَمَامَ مَقْہٰی قَدْ اِمْتَلا بِاُنَاسٍ فَارِغِیْنَ یُضَیّعُوْنَ الْوَقْتَ فِی اللَّہْوِ وَالتَّسْلِیَةِ فَقَالَ لِبَعْضِ مُحَبِّیْہِ آہ! کَمْ اَتَمَنّٰی اَنْ یَّکُوْنَ الْوَقْتُ مِمَّا یُبَاعُ لَاَشْتَرِی مِنْ ہٰوُلاَءِ جَمِیْعًا اَوْقَاتِہُمْ․
(ایک دفعہ وہ قہوہ خانے کے سامنے کھڑے ہوئے تھے، جو لوگوں سے بھراہواتھا اور وہ لوگ لایعنی اور ٹھٹھے میں مشغول تھے، نہایت حسرت کے ساتھ اپنے ایک ساتھی سے فرمایا آہ! جی یوں چاہتا ہے کہ وقت کوئی ایسی شئے ہوتی جو بیچی خریدی جاسکتی تو میں ان سب لوگوں کے اوقات کو خریدلیتا۔) (اقوال سلف)
حضرت مفتی محمود الحسن صاحب کے یہاں بھی حفاظت اوقات کا بڑا اہتمام تھا، حتی کہ کھانا کھاتے ہوئے بھی کتابیں پڑھایا کرتے تھے، چوبیس گھنٹے کی زندگی مشین کی طرح متحرک رہتی تھی۔ کوئی وقت بھی بیکار نہیں جاتاتھا۔
ایک مرتبہ مغرب کے بعد ایک طالب علم حاضر خدمت ہوئے، حضرت اس وقت کھانا تناول فرمارہے تھے، وہ سلام کرکے خاموش گردن جھکاکر بیٹھ گئے، حضرت نے فرمایا نوراللہ! کیا خاموش بیٹھے ہو؟ عرض کیا جی نہیں حضرت! قرآن شریف پڑھ رہا ہوں تو فرمایا ہاں! وقت کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔
مولائی وسیدی حضرت اقدس مولانا قاری صدیق احمد صاحب باندوی دامت برکاتہم کے یہاں بھی احقر نے اوقات کا بڑا اہتمام دیکھا، ہروقت کسی نہ کسی کام میں مشغولی ہے۔
ماہ مبارک کاآخری عشرہ تھا، علالت وآپریشن کے سبب ضعف بہت تھا اس لئے ایک دو آدمی کے سہارے چلتے پھرتے تھے، چنانچہ افطار کے وقت اپنے معتکف سے مسجد کے صحن میں عام دسترخوان پر ایک صاحب کے سہارے تشریف لائے، غروب قریب تھا، حضرت نے فرمایا کتنا وقت باقی ہے؟ کہا گیا دو منٹ، تو فرمایا بھائی پہلے بتادیتے۔ اگر ایک منٹ بھی ہوتا تو کچھ کام کرلیتے، اللہ اکبر یہ ہے اکابر کے یہاں اوقات کی قدردانی۔
امام رازیؒ اور حفظ اوقات
امام رازیؒ کے نزدیک اوقات کی اہمیت اس درجہ تھی کہ ان کو یہ افسوس ہوتا تھا کہ کھانے کا وقت کیوں علمی مشاغل سے خالی جاتا ہے۔
چنانچہ فرمایاکرتے تھے: ”وَاللّٰہِ اِنِّی اَتَاَسَّفُ فِی الْفُوَاتِ عَنِ الْاِشْتِغَالِ بِالْعِلْمِ فِیْ وَقْتِ الْاَکْلِ فَاِنَّ الْوَقْتَ وَالزَّمَانَ عَزِیْزٌ“ یعنی خدا کی قسم! مجھ کو کھانے کے وقت علمی مشاغل کے چھوٹ جانے پر افسوس ہوتا ہے۔ کیونکہ وقت متاع عزیز ہے۔
در بزم وصال تو بہنگام تماشا
نظارہ زجنبیدن مژگاں گلہ دارد
وقت کی قدر دانی نے ان کو منطق و فلسفہ کا ایسا زبردست امام بنایا کہ دنیا ان کی امامت کو تسلیم کرتی ہے۔
حافظ ابن حجرؒ اور حفظ اوقات
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ کے حالات میں آتا ہے کہ وہ وقت کے بڑے قدردان تھے۔ ان کے اوقات معمور رہتے تھے۔ کسی وقت خالی نہ بیٹھتے تھے۔
تین مشغلوں میں سے کسی نہ کسی میں ضرور مصروف رہتے تھے،مطالعہٴ کتب یا تصنیف و تالیف، یا عبادت۔ (بستان المحدثین)
حتی کہ جب تصنیف و تالیف کے کام میں مشغول ہوتے اور درمیان میں قلم کا نوک خراب ہوجاتا تو اس کو درست کرنے کیلئے ایک دو منٹ کا جو وقفہ رہتا، اس کو بھی ضائع نہ کرتے، ذکر الٰہی زبان پر جاری رہتا اور نوک درست فرماتے اور فرماتے وقت کا اتنا حصہ بھی ضائع نہیں ہونا چاہئے۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ اور حفظ اوقات
حضرت اقدس تھانوی نوراللہ مرقدہ نہایت منتظم المزاج اور اصول و ضوابط کے پابند تھے۔ وقت کے لمحات ضائع نہیں ہونے دیتے تھے۔ کھانے، پینے، سونے، جاگنے اوراٹھنے بیٹھنے کے تمام اوقات مقرر تھے، جن پر سختی سے عمل فرماتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے وقت میں برکت بھی بڑی عطا فرمائی تھی۔
خود فرماتے ہیں کہ مجھے انضباط اوقات کا بچپن ہی سے بہت اہتمام ہے۔ جو اس وقت سے لے کر اب تک بدستور موجود ہے، میں ایک لمحہ بھی بیکار رہنا برداشت نہیں کرتا۔
ایک مرتبہ میرے استاذ حضرت مولانا محمود حسن صاحب دیوبندی تھانہ بھون تشریف لائے، میں نے ان کے قیام اور راحت رسانی کے تمام انتظامات کئے، جب تصنیف کا وقت آیا تو باادب عرض کیا کہ حضرت میں اس وقت کچھ لکھا کرتا ہوں۔ اگر حضرت اجازت دیں تو کچھ دیر لکھ کر پھر حاضر ہوجاؤں، گو میرا دل اس روز کچھ لکھنے میں لگا نہیں۔ لیکن ناغہ نہیں ہونے دیا کہ بے برکتی نہ ہو۔ تھوڑا سا لکھ کر جلد حاضر خدمت ہوگیا۔ حضرت کو تعجب بھی ہوا کہ اس قدر جلد آگئے، عرض کیا حضرت! چند سطریں لکھ لیں معمول پورا ہوگیا۔ (ملفوظات حکیم الامت)
شیخ الحدیث مولانا زکریاؒ اور حفظ اوقات
شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریاصاحب کے متعلق صاحب آداب المتعلّمین تحریر فرماتے ہیں کہ ایک عرصہ سے صرف ایک وقت دوپہر کو کھانا کھاتے، شام کو کھانا تناول نہیں فرماتے، کہتے ہیں کہ میں نے متعدد بار حضرت سے سنا کہ میری ایک مشفق ہمشیرہ تھی۔ میں شام کو مطالعہ میں مصروف ہوتا تھا تو وہ لقمہ میرے منھ میں دیا کرتی تھی۔ اس طرح مطالعہ کا حرج نہ ہوتا تھا۔ لیکن جب سے ان کا انتقال ہوگیا۔ اب کوئی میری اتنی ناز برداری کرنے والا نہیں رہا اور مجھے اپنی کتابوں کا نقصان گوارہ نہیں، اس لئے شام کا کھانا ہی ترک کردیا۔
حضرت مولانا یوسف صاحبؒ اور حفظ اوقات
حضرت مولانا محمد یوسف صاحب کے حالات میں لکھا ہے کہ آپ کو بہت ہی کم عمری میں تعلیم کا بہت شوق تھا۔ عام لڑکوں کی طرح وہ اپنے فرائض سے غافل نہیں رہتے تھے اور نہ کھیل کود میں اپنا وقت ضائع کرنا پسند کرتے تھے۔ جب تک فقہ اور حدیث کی کتابیں شروع نہیں کیں تو صحابہٴ کرام کے تذکرے اور خدا کی راہ میں ان کی جانبازی اور قربانی کے واقعات سے بڑی گہری دلچسپی تھی،اس سلسلہ کی جوکتابیں ملتیں بڑے ہی ذوق وشوق اور جذب و کیف سے پڑھتے، کتاب ”محاربات اسلام“ جس میں صحابہٴ کرام کے جہاد اور فتوحات کا تذکرہ ہے، بچپن ہی سے بڑے اشتیاق سے پڑھا کرتے تھے۔ جب فقہ اور حدیث کی تعلیم شروع کی تواس مبارک علم میں پوری طرح مشغول ہوگئے۔ دن کاکوئی حصہ ایسا نہ ہوتا جس میں خالی بیٹھتے اور کوئی کتاب ہاتھ میں نہ ہوتی ہو، وہ کسی ایسے کام کو پسند نہ کرتے تھے جو تعلیم میں کسی طرح مخل ہو۔ (سوانح مولانایوسف صاحب)
وقت میں عجیب برکت اور اس کے مثالی واقعات
انضباط اوقات سے وقت میں عجیب برکت ہوتی ہے۔ چنانچہ ہمارے اسلاف و اکابر کی زندگی میں برکت کی سینکڑوں مثالیں ہیں۔ تھوڑے سے عرصہ میں انھوں نے محیرالعقول کارنامے انجام دئیے ہیں۔
علامہ ابن الجوزیؒ فرماتے ہیں کہ میری پہلی تصنیف اس وقت ہوئی ہے جب میری عمر تقریباً تیرہ برس کی تھی۔ آپ کے پوتے ابوالمظفر کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دادا سے آخری عمر میں برسرمنبر یہ کہتے سنا ہے کہ میری ان انگلیوں نے دوہزار جلدیں لکھی ہیں۔ میرے ہاتھ پر ایک لاکھ آدمیوں نے توبہ کی ہے اور بیس ہزار یہود ونصاریٰ مسلمان ہوئے ہیں، علامہ موصوف کی تصانیف کو دیکھ کر علامہ ذہبی کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ کسی عالم نے ایسی تصنیفات کیں جیسی آپ نے کیں، جن قلموں سے شیخ نے حدیث شریف کی کتابیں لکھی تھی، ان کاتراشہ جمع کرتے گئے تھے۔ جب وہ وفات پانے لگے تو وصیت کی کہ میرے غسل کا پانی اسی تراشے سے گرم کیا جائے چنانچہ جس پانی سے ان کو غسل دیاگیااس کے نیچے وہی پاک ایندھن جلایاگیا تھا۔
عام حالت میں بسر کی زندگی تونے تو کیا
کچھ تو ایسا کرکہ عالم بھر میں افسانہ رہے
ابن جریر طبری کے حالات میں صاحب البدایہ والنہایہ نے لکھا ہے ”رُوِیَ عَنْہ اَنَّہ مَکَثَ اَرْبِعِیْنَ سَنَةً یَکْتُبُ وَکُلَّ یَوْمٍ یَکْتُبُ اَرْبَعِیْنَ وَرَقَةً“ کہ وہ مسلسل چالیس سال تک لکھتے رہے اور روزانہ چالیس ورق لکھتے تھے۔ (البدایہ والنہایہ)
درس نظامی کی مشہور اور معروف کتاب ”تفسیر جلالین شریف“ کو اس کے مصنف علامہ سیوطی نے بیس بائیس سال کی عمر میں بہت قلیل مدت میں یعنی صرف چالیس روز میں لکھی ہے اور آج پورے سال میں بڑی مشکل سے پڑھی جاتی ہے۔
علامہ نووی نے بستان میں ایک معتمد شخص سے نقل کیا ہے کہ میں نے امام غزالی کی تصانیف اور ان کی عمر کا حساب لگایا تو روزانہ اوسط چار کراسہ پڑا، کراسہ چار صفحوں کا ہوتا ہے یعنی سولہ صفحے روزانہ ہوئے، اور علامہ طبری، ابن جوزی اور علامہ سیوطی کی تصنیفات کاروزانہ اوسط اس سے بھی زیادہ ہے۔ (ظفر المحصلین)
حضرت مولانا عبدالحئی صاحب فرنگی محلی کے حالات میں ہے کہ عنفوان شباب کی سترہ سالہ عمر ہی میں تحصیل علوم سے فراغت پاکر مسند درس پر فائز ہوگئے تھے اور ہر فن میں کامل دسترس رکھتے تھے، علم حدیث ہوکہ علم اسناد و رجال، علم تفسیر ہوکہ علم فقہ وفتاویٰ، فلسفہ ہوکہ ریاضی وہیئت ان تمام علوم میں آپ کی بیش بہا تصانیف کا ذخیرہ موجود ہیں جن کی تعداد بقول شیخ ابوالفتاح ابوغدہ کے ایک سو بیس ہے اور آپ کی عمر صرف انتالیس سال ہے، اتنی قلیل عمر میں دوسرے مشاغل کے ساتھ اس قدر تصانیف عطیہٴ خداوندی ہے، آپ کے سوانح نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر آپ کی تصانیف کے صفحات کو آپ کے ایام زندگی پر تقسیم کیاجاوے تو صفحات کتب ایام زندگی پر فوقیت لے جائیں گے۔ (ملخص از نفع المفتی والسائل)
بلوغ کے بعد سے آپ کی زندگی پر تصانیف کو تقسیم کا اندازہ لگایا گیا تو ہر دو ماہ اور بارہ تیرہ روز پر ایک تصنیف ہوتی ہے جب کہ ہر تصنیف کا اوسط ایک سو اٹھارہ صفحات سے زیادہ نکلتا ہے۔
ایک جگہ شیخ جمال الدینؒ اپنا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَقَدْ اِتَّفَقَ لِی بِحَمْدِہِ تَعَالٰی قِرَائَةَ صَحِیْح مُسْلِمْ بِتَمَامِہِ رِوَایَةً وَدرَایَةً فِی اَرْبَعِیْنَ یَوْمًا وَقِرَأةَ سُنَنِ اِبْنِ مَاجَہ کَذٰلِکَ فِی وَاحِدٍ وَعِشْرِیْنَ یَوْمًا وَقِرَأَةَ الْمُوٴَطَّا کَذٰلِکَ فِی تِسْعَةَ عَشَرَ یَوْمًا وَتَقْرِیْبَ التَّہْذِیْبِ مَعَ تَصْحِیْحِ سَہْوِ الْقَلَمِ فِیْہِ وَتَحْشِیَتِہ فِی نَحْوِ عَشَرَةِ اَیَّامٍ فَدَعْ عَنْکَ الْکَسْلَ وَاحْرِصْ عَلٰی عَزِیْزِ وَقْتِکَ بِدَرْسِ الْعِلْمَ وَاِحْسَانِ الْعَمَلِ․
یعنی اللہ کے فضل سے مجھے یہ توفیق ملی کہ میں نے پوری صحیح مسلم روایة اور درایة صرف چالیس دن میں پڑھ لی، اسی طرح سنن ابن ماجہ اکیس دن میں، امام مالک کی موٴطا انیس دن میں پڑھ لی، اسی طرح تقریب التہذیب دس روز میں پڑھ ڈالی ہے، جبکہ دوران مطالعہ اس کی قلمی غلطیوں کو درست بھی کیا اور حاشیہ بھی ساتھ ساتھ لکھتا گیا، پس اے طلبہ! میں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ سستی اور کاہلی ترک کردو اور اپنے اوقات عزیز کو حصول علم اور حسن عمل کی محنتوں میں کھپاؤ۔ (اقوال سلف)
حضرت تھانوی نوراللہ مرقدہ کی شخصیت سے کون ناواقف ہے؟ آپ کی ذات کو اللہ تعالیٰ نے اس اخیر دور میں نابغہٴ روزگار بنایاتھا، آپ سے جتنا کام لیاگیا بہت کم لوگوں سے لیاگیا ہوگا، ایک ہزار کے قریب آپ کی تصانیف ہیں، آپ کے زبردست کارناموں کو دیکھ کر بسا اوقات یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ ایسے کارنامے کسی ایک فرد کے نہیں بلکہ کسی بڑے ادارے یا اکیڈمی کے ہیں۔
بڑی مدت میں ساقی بھیجتا ہے ایسا فرزانہ
بدل دیتا ہے جو بگڑا ہوا دستور میخانہ
حضرت الاستاذ مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم تحریر فرماتے ہیں کہ ماضی قریب میں اللہ تعالیٰ نے حکیم الامت حضرت اقدس مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ کے کاموں میں جوبرکت عطا فرمائی ہے، اس کی مثال قرون اولی میں بھی خال خال ہی نظر آتی ہے، فقہ و فتاویٰ ہو یا علوم تفسیر، اسرار وحکم ہو یاآداب معاشرت، شرح حدیث ہو یا سلوک و تصوف، علم کا کونسا گوشہ ایسا ہے جس میں آنحضرت نے کتابوں کے انبار نہیں لگادئیے مواعظ وملفوظات کا تو اتنا بڑا ذخیرہ چھوڑاہے کہ عمر نوح چاہئے اس کی سرسری سیر ہی کیلئے۔
وقت میں عجیب برکت تھی، ایک رسالہ ہے ”الابتلاء“ سولہ صفحوں کا تین گھنٹے میں ایک جلسہ میں لکھا ہے جس کی جامعیت حیرت انگیز ہے۔
ایک تقریر بحیثیت صدر مدرس میرٹھ کے ایک جلسہ میں کی تھی بتیس صفحات پر ہے جو ”دعاء الامت بداة الملت“ کے نام سے شائع ہوئی ہے، وہ صرف پانچ گھنٹے میں لکھی گئی ہے۔
فرمایا کہ مکہ معظمہ میں حضرت مرشدی حاجی امداد اللہ صاحب کے حکم سے کتاب ”تنویر“ کا ترجمہ لکھا کرتا تھا، وہ حضرت کو سنا بھی دیتا تھا، ایک بار حسب معمول سنایا تو حضرت نے دریافت فرمایا کتنی دیر میں لکھا ہے؟ میں نے عرض کیا اتنے وقت میں لکھا ہے تو فرمایا کہ اتنے سے وقت میں کوئی بھی اتنا مضمون نہیں لکھ سکتا اور بہت دعائیں دیں۔