استاذ کی چند خوبیاں

سبق میں حاضری۔

مدرس کا فریضہ ہے کہ درس گاہ میں وقت پر حاضر ہو، اور تمام وقت طلبہ پر لگائے، جس جماعت کا یہ گھنٹہ ہے وہ اس جماعت اور سبق کا حق ہے، اس میں کوتاہی کرنا حق شکنی ہے، تنخواہ پورے گھنٹے کی ملے گی اور اگر پورا گھنٹہ نہ دیا تو خیانت متصور ہوگی، اور اتنے حصہ کی تنخواہ بھی حلال نہ رہے گی، ناشتہ، وضو یا غسل کریں، کپڑے تبدیل کریں، سب شرعی و طبعی ضروریات بہر کیف پوری کریں لیکن اوقاتِ مدرسہ میں درس گاہ میں پہنچنے کو یقینی بنائے رکھیں، تاخیر کو زندگی کا حادثہ سمجھیں، معمول نہ بنائیں۔ کسی حادثہء مسرت یا حادثہء غم کا ایسا اثر اپنی طبیعت پر ظاہر نہ ہونے دیں جو تقریر و تدریس کے نشاط میں مانع ہو، صاف ستھرے کپڑے اور جسم، توجہ کامل، انتہائی کیف و سرور کے ساتھ علم کے منظم موتیوں کے ہار اپنے ذہن کے "بریف کیس” میں مرتب کرکے درسگاہ میں پہنچیں، سبق اور طلبہ پر حاوی رہیں، اپنی دُھن میں مست اور منہمک رہیں اور طلبہ کو بھی دُھن میں مست رکھنے کا اہتمام کریں۔

سبق سے پہلے اگر اشراق کا وقت ہوچکا ہو تو دو رکعت نفل پڑھ لیں جس میں تداخل نیات ہو، یہ نفل صلاۃ التوبہ بھی ہوں، اے اللہ! میرے مطالعہ کی خامیاں دور کردے، گناہوں کی ظلمات کے اثرات دور کردے کہ وہ تقریر پر چھا نہ جائیں اور صلاۃ الحاجۃ کی بھی نیت ہو کہ میں نے جو مطالعہ کیا ہے اس کو سہل انداز سے منتقل کرنے کی توفیق عطاء فرمادے، انشاء اللہ یہ سونے پر سہاگہ کا کام دے گا ورنہ کم از کم استاد با وضو ہو، وضو سے نور قلب حاصل ہوتا ہے، باوضو اور بے وضو پڑھانے میں زندہ اور مردہ کا فرق ہے، غذا وغیر کی ترتیب ایسی رکھیں جس سے وضو باقی رکھنے میں مدد ملے۔

جب مطالعہ کامل ہوگا اور طلبہ کو فیض پہنچانا استاد کی زندگی کا مقصد ہوگا اور طبیعت بھی مشوش نہ ہوگی، مجلس علم بھی نشاط سے بھر پور ہوگی تو سبق کا یہ کیف و سرور استاد کو کتنا چڑھائے گا اور طلبہ کے شوق میں کیا تلاطم پیدا کرے گا اور ان میں علم کی کیسی مستی پیدا کرے گا؟ چکھنے کی چیز چکھ کر ہی معلوم ہوگی۔

سبق کی نشست۔

استاد کو درس گاہ میں ایسے بیٹھنا چاہئے کہ جس میں وقار بھی ہو اور عاجزی اور مسکنت بھی، چستی بھی ہو تیقظ بھی، طلبہ کو بھی ان ہیئات و اوضاع کا عادی بنائے، تپائیاں سیدھی ہوں، طلبہ سیدھے قطار میں بیٹھے ہوں، بیٹھنے کے حلقے کا اسلوب متعین ہو، طالب علمانہ ہیئت سے بیٹھے ہوں، چونکہ ظاہر باطن میں مؤثر ہوتا ہے اس لئے اس حسن صورت کا حقیقت تک رسائی میں بہت تعاون ہوگا۔ ان طلبہ کا معمول بنادیں کہ ان کی نظر استاد اور کتاب ہی کی طرف رہے، دائیں بائیں یا پیچھے مڑکر دیکھنا ایسا مزاج بالکل نہ بننے دیا جائے۔

درس گاہ اور امتحانی ہال اور نماز میں ان اوضاع کو بڑی شفقت سے بچوں کی طبیعت بنادیں۔ جب بچوں کی طبیعت ہی ایسی بن جائے گی تو سختی کی ضرورت پیش نہیں آئے گی، لچک دے دے کر طلباء کو بُری اوضاع کا عادی بناکر ان کو روکنا سختی سمجھا جائے گا۔ اس لئے ابتدا ہی سے ان کی مزاج سازی کریں۔

بچوں کی تربیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ڈنڈا لے کے ان کے پیچھے پڑجاؤ، ڈنڈے سے وقتی طور پر بچے دب جائیں گے لیکن ان کی مزاج سازی نہیں ہوگی۔ ڈنڈے کے بغیر ان کی طبیعت اور عادت کو صحیح رخ عطا کریں۔ اگر آپ ان کو سیدھا کرکے بٹھا نہیں سکتے تو پڑھائیں گے کیا؟۔

یہ ساری کمزوریاں استاد کی طرف سے آتی ہیں، استاد توجہ اور تیقظ سے بیٹھے گا تو شاگرد بھی اسی طرح بیٹھیں گے۔

شیئر کریں

رائے

فہرست

اپڈیٹ شدہ

اشتراک کریں

سبسکرائب کریں

نئے اپڈیٹس بارے معلومات حاصل کریں۔ اپنا ای میل ایڈریس درج کریں اور سبسکرائب بٹن دبائیں۔ شکریہ

سوشل میڈیا

مشہور مدارس