وفاق المدارس کا تاریخ ساز اجلاس. آنکھوں دیکھا حال

اسلام آباد شہر دامن کوہ کے قدموں میں ہے۔ ایک دفعہ رات کے وقت دامن کوہ جانا ہوا۔ حنظلہ اس وقت غالبا پانچ برس کا تھا، بلندی سے اسلام آباد پر نگاہ ڈالی توچیخ اٹھا ” سب ستارے آج زمین پر آگئے ہیں” حنظلہ کی حیرت، اس کی خوشی،اس کی کیفیت کبھی بھی بھلائے نہیں بھولتی، 16اور 17جون 2021ء کے دودن میری بھی تقریبا وہی کیفیت تھی جو حنظلہ کی تھی، وہی حیرت، وہی مسرت، وہی سرشاری، وہی سعادت مندی۔
مجھے لگتا تھا میں بھی پانچ سال کا بچہ ہوں اور میرے ارگرد تارے ہی تارے ہیں، میرے سامنے بھی پوری کہکشاں اور ڈھیر سارے تارے اسلام آباد کی زمین پر اتر آئے تھے،شفیق الامۃ یادگار اسلاف حضرت مولانا پیر عزیزالرحمن ہزاروی صاحب کا مارگلہ پہاڑوں کے دامن میں بسایا ہوا گلشن دارالعلوم زکریا جگمک جگمگ کر رہا تھا،ملک بھر سے مشائخ،اکابر، علماءکرام، ائمہ وخطباء اور دینی مدارس کے منتظمین سب ہی علم کی اس وادی میں جمع تھے۔
نورانی چہرے، سفید براق لباس،سیاہ و سفید عمامے، ہر طرف ایک عجب بہار تھی۔ نامی گرامی ہستیاں، ہر دلعزیز شخصیات، مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے، رنگا رنگ بولیاں بولنے والے، مختلف تنظیموں کے وابستگان۔، ایسی ایسی شخصیات جن کے تلامذہ کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ ایسی ایسی ہستیاں جن سے کسب فیض کرنے والے لاکھوں کی تعداد میں ہیں، ایسے ایسے لوگ جن سے وقت لینے کے لیے مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے، ایسے ایسے اہل اللہ جن کی ایک جھلک دل کی دنیا بدل کر رکھ دیتی ہے،ایسے ایسے مردان خدا جنہوں نے نصف صدی سے زائد عرصہ درس و تدریس میں گزارا،ایسے ایسے جہاں دیدہ اکابر جو شرق و غرب میں اسلام کا پیغام محبت لے کر پھرے۔
اپنی مختصر میں زندگی میں بہت سے اجتماعات دیکھے،بہت سےاجلاسوں میں خدمت پر مامور رہا، بہت بہت مواقع آئے، لیکن ایسا یارگار،تاریخ ساز، ایمان افروز اور نورانی اجتماع شاید ہی کبھی دیکھا ہو،یہ صرف منتخب لوگ تھے، صرف وہ حضرات جو وفاق المدارس کی مجلس عاملہ، مجلس شوری اورمجلس عمومی کے رکن تھے،صرف وہی اس اجلاس میں مدعو تھے، ان کے علاوہ کسی کو اس اجتماع میں شرکت کی اجازت نہ تھی لیکن پھر بھی اتنی حاضری۔ ستنی بڑی تعداد، اتنا اہتمام، ایسے ایسے حضرات کی شرکت، سبحان اللہ، ۔وفاق المدارس کی مجلس عمومی کے کل تعداد تقریبا 1328 ہے۔

جب کہ اس اجلاس میں 1200 سے زائد حضرات شریک تھے، دارالعلوم زکریا کے بانی حضرت مولانا پیر عزیز الرحمن ہزاروی صاحب کو اللہ رب العزت نے بہت بڑا دل اور کھلے ہاتھ عطا فرمائےتھے، فیاض، سخی، مہمان نواز، گزرے وقتوں کے قبیلوں کے سرداروں کی جو صفات کتابوں میں پڑھتے ہیں وہ سب حضرت پیر صاحب میں یکجا تھیں۔۔۔۔ اب وہ نہیں ان کی کمی ہر وقت ہی شدت سے محسوس ہوتی ہے، حضرت مولانا محمد حنیف جالندھری صاحب فرمانے لگے”

آج پیر صاحب حیات ہوتے تو ان کی عید ہوتی،واقعتاً عید ہوتی، لیکن ان کے صاحبزادگان اور دارالعلوم زکریا کے اساتذہ وطلبہ اور متعلقین و محبین نے مہمان نوازی کا حق ادا کیا،حسن انتظام میں کمال کر دکھایا، خاص طور پر ںرادرمکرم حضرت مولانا قاری عتیق الرحمن اور برادر گرامی مولانا مفتی اویس عزیز صاحب نے حضرت کی یادیں تازہ کر دیں، اجلاس کے لئے اسلام آباد راولپنڈی کے تمام علمائے کرام اور اہل مدارس نے جس اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کیا وہ قابل رشک ہے۔۔۔

جڑواں شہروں کے اہل مدارس میں ہم آہنگی، یہاں کی شخصیات کے مابین تعاون و تناصر کی جو فضا ہے وہ قابل رشک ہے۔ اجلاس سے دو دن قبل دارالعلوم فاروقیہ راولپنڈی میں اجلاس ہوا۔ جامعہ محمدیہ اسلام آباد میں مشاورت ہوئی۔ مولاناقاضی عبدالرشیدصاحب اور مولانا ظہوراحمد علوی صاحب نے ہمیشہ کی طرح سب کو جمع کیا،سب کو موقع دیا،سب کو اعتماد میں لیا، ان اجلاسوں میں اسلام آباد راولپنڈی اور قرب وجوار سے تقریباً تمام مدارس اور تمام اہم شخصیات نے شرکت کی۔ وفاق المدارس کے تاریخی اجلاس کے لیے تیاریوں کا خاکہ تیار ہوا۔

سب حضرات نے اپنی طرف سے مہمانوں کے اکرام اور میزبانی کا انتظام کیا اور اس کے حساب سے تعداد بتائی۔ مہمانوں کو ائرپورٹ اور اڈوں سے وصول کرنے اور لانے لے جانے کے لیے گاڑیاں پیش کیں۔ اسلام آباد راولپنڈی اور قرب وجوار کے علاقوں میں بینرز لگانے کی ترتیب بنائی گئی۔ اجلاس کے موقع پر اسلام آباد راولپنڈی کے تمام مدارس اور ان کے اساتذہ و طلبہ اور ممتاز علمائے کرام انتظامات اور خدمت میں یوں پیش پیش رہے جیسے یہ اجلاس صرف دارالعلوم زکریا میں نہ ہو رہا ہے بلکہ اسلام آباد راولپنڈی کے دونوں شہر وفاق المدارس کے اجلاس کی مشترکہ میزبانی کر رہے ہوں۔

وفاق المدارس کے مرکزی دفتر کے عملے نے اپنی روایات کے مطابق اجلاس کی تیاری،فہرستیں مرتب کرنے، دعوت نامہ تیار کرنے،ملک بھر کے ناظمین و مسولین سے رابطہ کرنے سمیت سب کام حسن و خوبی کے ساتھ سرانجام دیئے۔ناظم دفتر مولانا عبدالمجید اور محاسب دفتر چودھری ریاض صاحب اپنی پوری ٹیم کے ساتھ یوں تشریف لائے لگتا تھا جیسے پورا دفتر اسلام آباد شفٹ ہو گیا ہو۔

ہمارے میڈیا سیکشن اور تحریر و اشاعت کے احباب گرامی مولانا طلحہ رحمانی،مولانا محمد احمد حافظ،مولانا عبدالروف محمدی،مولاناتنویراحمد اعوان،محمد اسامہ صابراور محمد انیس سمیت دیگر احباب کی طرف سے لمحہ بہ لمحہ خبروں اور اپ ڈیٹس کا سلسلہ جاری رہا۔ رپورٹنگ کا عمل سرانجام دیاجاتارہا۔۔۔اہم بیانات کی ریکارڈنگ کااہتمام کیا گیا. میڈیا سیکشن کی خدمات میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے بھی سامنے آتی رہیں اور زیرنظر مجلہ میں بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔

عموماً یہ ہوتا ہے کہ پروگراموں اور اجلاسوں میں اہم لوگ سب سے آخر میں تشریف لاتے ہیں لیکن اس اجلاس میں اس کے برعکس ہوا سب سے پہلے ناظم اعلی وفاق المدارس العربیہ پاکستان مولانا محمد حنیف جالندھری تشریف لائے۔ انتظامات کا جائزہ لیا۔ قیمتی تجاویز اور مشوروں سے نوازا۔۔۔۔آنے والے مہمانوں کا استقبال کیا۔ ہر ہرعمل اور انتظام کی بنفس نفیس نگرانی فرماتے رہے۔ ان کے بعد حضرت شیخ اسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی تشریف لائے اور پورےدو دن دارالعلوم زکریا میں قیام فرمایا۔ سینیٹر طلحہ محمود صاحب سمیت حضرت کے بہت سے نیازمند اصرار کرتے رہے لیکن حضرت پوری طرح یکسو ہو کر وفاق المدارس کے اجلاسوں اور معاملات میں مصروف رہے.

دارالعلوم زکریا کے پہلو میں واقع ایک وسیع و عریض،خوبصورت،کشادہ اورعالی شان فارم ہاؤس میں اکابر کے قیام اور مجلس عاملہ کے اجلاس کا اہتمام کیا گیاتھا۔ اکابر ومشائخ کی ضروریات، مزاج اورراحت کا ہر ظرح سے خیال رکھا گیا۔ پرتکلف ضیافتیں جاری رہیں۔ خدمت پر مامور مستعد خدام، سیکورٹی کے فول پروف انتظامات اور رش، مداخلت اور زحمت سے بچنے کا ہر ممکن انتظام تھا۔

16جون بروز بدھ مجلس عاملہ کا اجلاس ہوا۔ طویل اور تفصیلی مشاورت ہوئی۔ ہرپہلو پر غور کیا گیا۔ ہر معاملہ سامنے رکھا گیا۔ اگلے دن شوریٰ اور عمومی کا اجلاس دارالعلوم کی مسجد میں ہوا۔ کوئی قابل ذکر شخصیت نہ تھی جو اس موقع پر موجود نہ ہو۔ چند حضرات کے بیانات ہوئے۔ سب نے وفاق المدارس پر اعتماد کا اظہار کیا اوروفاق المدارس کو اللہ رب العزت کی رحمت قرار دیا۔ وفاق المدارس کو ایک ایسا سائبان قرار دیا جو سب کے لیے سرکا سایہ اورایسا گوشہ عافیت کہا گیا جہاں سب ہی سستانے کے لئے رکتے ہیں۔ اجلاس کے دوران نظم و ضبط مثالی تھا۔

تمام صوبوں کے حساب سے استقبالیہ کاونٹر بنائے گئے تھے۔ فہرستوں کی روشنی میں داخلہ کارڈز کا اجراء کیا گیا۔ اجلاس کے دوران ایک دوسرے کے احترام اور عقیدت ومحبت کے ایسے ایسے مظاہر دیکھنے کو ملے کہ رشک آیا۔ ناظم پنجاب حضرت مولانا قاضی عبدالرشید صاحب نے اجلاسوں کے انعقاد کے لئے انتظامات اور دیگر معاملات کو جس حسن و خوبی اورکمال مہارت سے مرتب کیا تھا اس سے کہیں بڑھ کر نقابت اور اجلاس کی نظامت کا فریضہ سرانجام دیا۔ قاضی عبدالرشید صاحب کو گلدستہ بنانے اور ہار پرونے کا گرآتا ہے۔ اجلاس کی تیاریوں کے لیے جیسے اسلام آباد راولپنڈی اور قرب وجوار کے علماء اور اہل مدارس کا نیٹ ورک بنایا اور اجلاس کے دوران جس طرح اہم شخصیت کو اظہار خیال کا موقع دیا یہ قاضی صاحب کا ہی وصف ہے۔

اجلاس کے دوران خطیب کشمیر حضرت مولانا سعید یوسف صاحب نے جو ولولہ انگیز خطاب فرمایا اس نے حاضرین میں ایک ولولہ پیدا کردیا۔ مولانا عطاء الرحمن صاحب نے وفاق المدارس کی قیادت پر اعتماد کا جس انداز سے اظہار کیا وہ قابل رشک ہے انہوں نے کہا کہ جس کو جس مرحلے سے گزرنا ہوتا ہے اور جن حالات کا واسطہ رہتا ہے وہ جانتا ہے کہ اس پر کیا گزری؟مدارس کی قیادت نے جس ہمت اور حکمت و بصیرت سے مدارس کے نظام و نصاب کی حفاظت کی وہ انہیں کا امتیاز اور اعزاز ہے۔

اس موقع پر سب سے مفصل خطاب ناظم اعلی وفاق المدارس حضرت مولانا محمد حنیف جالندھری کا تھا آپ نے وفاق المدارس کی تاریخ۔۔۔۔۔ مدارس کا ماضی اور حال۔۔۔۔۔ حکومت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات۔۔۔۔ مدارس کو درپیش مسائل اور مشکلات۔۔۔۔ مدارس کی اجتماعیت اور اتحاد و یکجہتی کو توڑنے کی کوششوں۔۔۔۔ مختلف المزاح اور مختلف خیالات کے لوگوں کو جس اعلی ظرفی سے ساتھ چلایا جاتا ہے اور مستقبل کے حوالے سے کیا امکانات اور صورتحال ہے اور مولانا جالندھری کس طرح اکابر کی مشاورت اور رہنمائی میں ایک ایک قدم اٹھاتے ہیں اور کس طرح گزشتہ اکتالیس برسوں سے وفاق المدارس میں مختلف ذمہ داریاں سر انجام دے رہے ہیں سب کا سب ایسے بیان کیا حاضرین سراپا توجہ بنے بیٹھے رہے-

حضرت مولانا فضل الرحمان کا فکر انگیز خطاب اس اجلاس میں خاصے کی چیز تھی۔ آپ نے جس خوبصورتی سے وفاق المدارس کی ضرورت و اہمیت,برکات،فوائد، اثرات اور نتائج کا تذکرہ کیا وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ وفاق المدارس کی قیادت کی پالیسیوں کو مولانا نے جس انداز سے بیان کیا اور حضرت صدر وفاق اور ناظم اعلی وفاق المدارس کے بارے میں جن جذبات و خیالات کا اظہار کیا اس نے اکابر واسلاف کی باہمی محبت واحترام کی۔ مولانا نے اپنے بیان میں برصغیر میں اسلام اور اسلامی تہذیب کے خلاف ہونے والی سازشوں۔۔۔ مقامی اور بیرونی اقدامات اور پالیسیوں اور اس کے تدارک کے لیے اختیار کی گئ حکمت عملی کو جس خوبصورتی اور وضاحت کے ساتھ بےنقاب کیا یہ مولانا کا ہی ہنر ہے اور پھر انہوں نے ہر زہر کا تریاق وفاق اور باہمی اتحاد و یکجہتی کو قرار دیا ۔

حضرت شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کا خطاب انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ صرف یہی خطاب نہیں بلکہ گزشتہ سال ختم بخاری کے اجتماعات سے حضرت کے خطبات،موجودہ تعلیمی سال کے آغاز پر دارالعلوم کراچی میں بیان،جامعہ اشرفیہ لاہور میں وفاق المدارس کی مجلس عاملہ کے اجلاس اور اب عمومی کے اجتماع میں حضرت مفتی صاحب نے جو ارشادات فرمائے یوں لگتا ہے جیسے یہ سب الہامی بیانات تھے۔ آپ نے جس انداز سے اکابر علمائے دیوبند کے مسلک و مشرب، مزاج و مذاق کو بیان کیا۔۔۔آپ نے اکابر کی زندگیوں کو سب کے سامنے کھول کر رکھ دیا۔

حضرت مفتی صاحب نے دینی طبقات میں در آنے والی بہت سی غلط فہمیوں، بہت سے مسائل اور قباحتوں کی بڑی خوبی اور حکمت کے ساتھ نشاندہی ہی نہیں کی بلکہ تطہیر بھی کی اور پھر وفاق المدارس کی طرف سے صدر کے لیے حسب سابق حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب اور جنرل سیکرٹری کے لیے لیے حضرت مولانا محمد حنیف جالندھری صاحب کا نام تجویز کیا تو پورے ہاؤس نے نہ صرف یہ کہ ہاتھ فضا میں بلند کرکے بلکہ کھڑے ہوکر اس تجویز کی تائید کی اور وفاق المدارس کی قیادت پر مکمل اور بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔1200 سے زائد علماءومشائخ کی طرف سے جس اجتماعیت، اعتماد،وثوق اور امید کے ساتھ وفاق المدارس کی قیادت کا انتخاب کیا گیا وہ لمحہ بلاشبہ تاریخی اور تاریخ ساز تھا۔اس موقع پر حضرت مولانا محمد حنیف جالندھری صاحب نے وفاق المدارس کے دستور میں کی جانے والی کچھ ترامیم کی بھی منظوری لی اور یوں یہ اجلاس اکابر کی دعاؤں سے اختتام کو پہنچا۔
اللہ ربّ العزت اس اجلاس کو امت مسلمہ اور دینی مدارس کے لیے نافع بنائیں۔ آمین

شیئر کریں

رائے

فہرست

اپڈیٹ شدہ

اشتراک کریں

سبسکرائب کریں

نئے اپڈیٹس بارے معلومات حاصل کریں۔ اپنا ای میل ایڈریس درج کریں اور سبسکرائب بٹن دبائیں۔ شکریہ

سوشل میڈیا

مشہور مدارس